تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 8 )، تحریر: اے آر بابر

نواز شریف گیدڑ ہے ، اور ضیاء الحق کے بوٹ پالش کر کے وزیر اعلیٰ بنا، وزیر اعظم عمران خان

گزشتہ روز کنوینشن سنٹر میں ٹائیگر فورس پورٹل کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم نے، گوجرانوالہ کے سولہ اکتوبر والے جلسے میں نون لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کو، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کی جانے والی تقریر پر ،اپنے دھواں دار خطاب میں میاں صاحب کو یہ کہہ کر آڑے ہاتھوں لیا کہ وہ ایک گیدڑ ہیں اور جنرل ضیاء کے بوٹ پالش کر کے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے۔ گویا ایسا گیدڑ جو بوٹ پالش بھی کر سکتا ہو ، وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ بہت خطرناک بات ہے اور عوام الناس کے لئیے لمحہِ فکریہ بھی ،کیونکہ اس وقت بھی پاکستان میں چار عدد انسان وزراء اعلیٰ کے مناصب پہ فائز ہیں ۔ اصل بات تو ساغر صدیقی مرحوم بہت پہلے کسی جسم فروش عورت کے متعلق کہہ گئے تھے کہ ، تُو نے عصمت کو بیچ ڈالا ہے ایک فاقے کو ٹالنے کے لئیے ، لوگ یزداں کو بیچ دیتے ہیں اپنا مطلب نکالنے کے لئیے ، نواز شریف نے توصرف تشبیہی بوٹ ہی پالش کئے تھے ۔ البتہ گیدڑ کے متعلق تو یہی سنا گیا ہے کہ جب اس کی موت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے ، اب اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو چونکہ پاکستان کا کوئی بھی شہر لندن جیسے بڑے، پر تعیش اور مہنگے شہر کا مقابلہ کر نہیں سکتا، لہٰذا کوئی ایسا گیدڑ جو افورڈ بھی کر سکتا ہو وہ چھوٹے شہر کی نسبت بڑے شہر کا ہی رخ کرے گا ، اگرچہ اس نے موت کا ذائقہ ہی کیوں نہ چکھنا ہو ، ویسے بھی حصہ بقدر جثہ کے مصداق امیر گیدڑ کے حصے میں لندن جیسے امیر شہر کا آنا ہی بنتا ہے ۔ الطاف حسین کے عین نقش قدم پہ چلتے ہوئے فوج کو برا بھلا کہنے کا سلسلہ درونِ خانہ تو برسوں سے جاری و ساری تھا ،اور ایک صرف جنرل ضیاء الحق کو چھوڑ کر نواز شریف کی ریٹائرڈ جنرلز مرزا سلم بیگ،وحید کاکڑ،جہانگیر کرامت کے ساتھ بنی اور نہ ہی جنرل آصف نواز کے ساتھ ان کے تعلقات ٹھیک رہے تھے ،جن کی پراسرار حالات میں موت واقع ہوئی تھی اور ان کے خاندان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ جنرل آصف نواز کو نواز شریف نے زہر دے کر قتل کروایا ہے۔ اسی طرح ریٹائرڈ جنرلز پرویز مشرف، کیانی اور راحیل شریف بھی نوازشریف کے دل میں جگہ نہ بنا سکے اور اب حاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف نوازشریف نے انگلینڈ بیٹھ کر گوجرانوالہ جلسے میں جس طرح اپنی نشریاتی تقریر میں انہیں “مجھے کیوں نکالا” کا محرک قرار دیے کر ان پہ دیگر کئی الزامات بھی عائد کئیے ہیں ، اس سے ایک بات تو بہرحال ثابت ہو جاتی ہے کہ گیڈر کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ، بالکل ویسے ہی جیسے اس سے پہلے برطانیہ ہی کے لے پالک اور ہندوانہ سوچ کے مالک الطاف حسین نے کئی دھائیاں پہلے لندن کا رخ کیا تھا اور وہاں پہ ان کی فی الحال سیاسی موت تو واقع ہو ہی چکی ہے ، کسی دن حقیقی بھی ہو جائے گی ، کیونکہ موت کا تو ایک دن معین ہے ، موصوف فوج کے خلاف بولتے بولتے پاکستان کے خلاف بھی بولنا شروع ہو گئے تھے ، کچھ ویسی ہی صورتحال کے آثار نواز شریف کی حرکات و سکنات سے عیاں ہو رہے ہیں ، دو قومی نظریے کی یہ دھجیاں بکھیر چکے ہیں ، ہندوؤں کے بھگوان اور مسلمانوں کے خدا کو یہ ایک ہی سمجھتے ہیں ، قادیانی موصوف کے بھائی بہن ہیں ، مسلمانوں کے خون کا پیاسا مودی ان کی نواسی کی شادی پہ افغانستان سے سیدھا جاتی عمرہ پہنچ جاتا ہے ، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پہ ان کا منہ ابھی تک سلا ہوا ہے ، ختم نبوت کی شقوں پہ انہوں نے شب خون مارنے کی کوشش بھی فرمائی تھی ، اور اب دلیری کی انتہا دیکھئیے اپنے آقاؤں کے دیس بیٹھ کر پاکستانی فوج کے سپہ سالار کے خلاف تقریریں فرما کر بھارتی میڈیا سے خراج تحسین بھی وصول رہے ہیں ، کیا وجہ ہے کہ بھارت کو عمران خان ناپسند اور نوازشریف من پسند ہیں ، اور کیا وجہ ہے کہ بھارت کو حافظ سعید صاحب سخت ناپسند اور مولوی فضل الرحمان بہت پسند ہے ، کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ، پاکستان اور پاکستانی افواج کے مخالف ہر شخص، ہر گروہ اور ہر جماعت، بھارت کو پسند ہی ہو گی ، آزمائش شرط ہے،مذید تجزیہ فرما لیجیۓ ۔ شیخ رشید کا نواز شریف کی حکومت اور فوج مخالف تقریر کے تناظر میں یہ فرمانا کہ لندن سے نواز شریف کا سیاسی جنازہ ہی آئے گا ، بعید از قیاس نہیں ، خدانخواستہ اصلی جنازہ بھی آ جائے گا تو اسی پاکستان کے عوام نے ہی ان کی تجہیز وتکفین کرنی ہے ، جس عوام کی افواج کے سربراہ کے خلاف موصوف جلی کٹی سنا رہے ہیں ، انہیں تو اپنے بیٹوں سے زیادہ عوام کے بیٹوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے کیونکہ کونسا ان کے بیٹوں نے خدانخواستہ ان کی حقیقی موت کی صورت میں ان کو سپرد خاک کرنے ان کے ساتھ واپس پاکستان آ جانا ہے ، جیسا کہ وہ اپنی والدہ کے جنازے کے ساتھ آئے تھے اور نہ ہی تدفین میں شامل ہوئے تھے ، بعض احباب تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کا اصل گھر تو لندن میں ہی ہے، اور اپنے گھر میں پہلے تو صرف یہ سنا تھا کہ ایک وفادار ترین جانور ہی شیر ہوتا ہے، لیکن عمران خان نے نوازشریف کو گیدڑ کہہ کر لوگوں کو یہ کہنے کا جواز مہیا کر دیا ہے کہ اپنے گھر گیدڑ بھی شیر ہوتا ہے ، ان کی تو جماعت کا انتخابی نشان بھی ایک جانور کا ہے ۔ اللّٰہ کریم ہر خونخوار جانور سے پاکستان ، اہلیان پاکستان اور افواج پاکستان کو ہمیشہ کے لئیے اپنے حفظ وامان میں رکھے آمین ثم آمین

 اپوزیشن اب نیا عمران خان دیکھے گی، وزیراعظم عمران خان

کیونکہ اپوزیشن کے ساتھ عوام، نیا پاکستان تو دیکھ چکے، اور بھگت بھی، اب کچھ نہ کچھ مذید تبدیل ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ یکسانیت سے لوگ جلد اکتا جاتے ہیں ، یہ انسانی فطرت ہے ۔ گویا خان صاحب کو دو سال بعد اس بات کی سمجھ آئی ہے کہ سسٹم کو تبدیل کرنے سے پہلے خود کو تبدیل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن تبدیلی مثبت اور بھرپور ہونی چاہئے، ایسی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس کے بعد بھی انہیں یہ کہنے کی ضرورت پیش آئے کہ،نواز شریف خود واپس آ جائیں، انہیں عام جیل میں ڈالوں گا ۔ کنوینشن سینٹر میں اپنی دیگر سخت باتوں کی طرح اس بات کو یوں کہہ لیتےکہ ، نوازشریف عدالتوں کو مطلوب اور قومی مجرم ہے اسے انگلینڈ سے ہر صورت گرفتار کر کے واپس لایا جائے گا ، تو اس بات کا ثبوت مل جاتا کہ ان کی اس بات میں وزن ہے کہ، اپوزیشن کے ساتھ اب ایک نیا عمران خان ٹکرائے گا ۔ مگر زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ ابھی تک سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں ، وہ بھی حکومت پاکستان کو مطلوب ہیں جو کہ لندن میں ماروی میمن کے ساتھ دوسری شادی فرما کر دندناتے اور ہنیاں مونیاں مناتے گھوم پھر رہے ہیں ۔ ان کو تو واپس لایا نہیں جا سکا اور اربوں کھربوں ڈکار جانے والوں سے اب تک موجودہ حکومت کتنے پیسے واپس لے سکی ہے ، کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ نواز شریف ترلے منتوں سے واپس آنے سے تو رہے اور اگر ان کا واپس آنا ہی اب حکومت کو درد سر بنتا نظر آ رہا ہے تو انہیں انگلینڈ جانے ہی کیوں دیا گیا تھا ۔ کیا یہ اس بات کا اقرار نہیں کہ پاکستان علاج معالجے کے سلسلے میں کافروں سے بہت پیچھے ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اب ایسی کیا انہونی ہو گئی ہے کہ اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو انہیں عام قیدیوں کی جیل میں ڈالا جائے گا ۔ گویا انہیں پہلے جو جیل میں مراعات دی گئی تھیں وہ کیا غلط تھیں ، اور اگر انہیں عام جیل میں ڈالے جانے کی دھمکی کے پیچھے اصل وجہ ان کا آرمی چیف اور فوج کے دیگر افسران کے خلاف بولنا ہی ہے تو کیا ایسی ہی زبان انہوں نے ، مجھے کیوں نکالا ، کے موقع پر بے دریغ استعمال نہیں کی تھی ۔ گربہ کشتن روز اول ،پہ عمل کیا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ خیر وہ تو انگلینڈ آرام وسکون سے اپنے ہٹے کٹے بیٹوں کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ، وہ تو جب آئیں یا لائیں جائیں گے تب دیکھیں گے کہ نیا عمران خان ان کے ساتھ کیا کرتا ہے ،فی الحال کسی بھی جماعت کے جو چور اور ڈاکو پاکستان میں موجود ہیں ، وہ کب شکنجے میں آئیں گے ، مٹ جائے گی مخلوق خدا تو انصاف کرو گے ۔ بلاول اور مریم کے متعلق انکے یہ کہنے سے کہ وہ حرام کی کمائی سے پلے ہیں ،کیا ان لوگوں کی تسلی و تشفی ہو جائے گی جو دو وقت کی حلال کی روٹی کے حصول کے لئیے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور پوری پھر بھی نہیں پڑ رہی۔ لہٰذا جو کرنا ہے فی الفور کریں، چوروں ، ڈاکوؤں اور کرپشن کنگوں کو پکڑ کر ان سے عوام کی لوٹی ہوئی رقم نکلوا کر واپس خزانے میں جمع کروائیں۔ جزباتی باتیں فیچر فلموں میں ڈائلاگ کی ادائیگی میں ہی اچھی لگتی ہیں ، پاکستان ایک حقیقت ہے اسے حقیقی اور مثبت طور طریقے اختیار کر کے ہی اقوام عالم میں اوپر لایا جا سکتا ہے ، ورنہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا ، تاریخ کے اوراق میں موجودہ حکومت کی داستاں بھی دفن ہو کر رہ جائے گی، جسکی تجہیز وتکفین کا سامان اس حکومت کے وزیر اور مشیر خود اپنے ہاتھوں سے جمع کر رہے ہیں ، اور جس کا بالآخر نتیجہ جو نکلے گا وہ یہی ہو گا کہ ، تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

___________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں