تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 9 )، تحریر: اے آر بابر

زرداری مجھے بیٹی اور بلاول بڑی بہن سمجھتے ہیں ، مریم نواز شریف

گویا دونوں باپ اور بیٹا مشرقی روایات اور معاشرتی اخلاقیات پہ کاربند ہیں۔ اپنی ازلی دشمن سیاسی جماعت کی سرکردہ خاتون راہنما کو عزت دے کر انہوں نے اپنے قد کاٹھ میں یقیناً اضافہ ہی کیا ہے ۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر مریم صاحبہ ان اصحاب کے متعلق جو جلی کٹی باتیں جلسے جلوسوں میں ببانگ دھل ارشاد فرما کر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی دل آزاری کا باعث بنتی رہی ہیں ، ان پہ بھی کچھ روشنی ڈال دیتیں اور جس بڑے پن کا مظاہرہ زرداری اور ان کے بیٹے نے انہیں ایسی عزت وتکریم دے کر کیا ہے کہ جسے وہ پی ڈی ایم کے کراچی میں ہونے والے اپنے دوسرے جلسے میں بیان کر کے سراہ بھی رہی ہیں ، ویسے ہی بڑے پن کا مظاہرہ وہ ان دونوں سے اور ان کی جماعت کا کارکنوں سے ، معزرت کر کے خود بھی کر لیتیں، جو ان سے نہ ہو سکا ۔ زرداری کے سسر ، اور بلاول کے نانا کو جس طرح مریم کے پاپا اور عام نون لیگی ، تضحیک و تذلیل کا نشانہ بناتے رہے ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ۔ خود بلاول کی والدہ اور پاپا کو مریم کے پاپا نے جس طرح کی تشبیہات سے موسوم کیا ،اسے بلا خوفِ تردید بداخلاقی کی کتاب میں ایک گھٹیا باب کا اضافہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔ مگر کیا کِیا جائے ، سیاست کے حمام میں کسی نے بھی کپڑے نہیں پہنے ہوئے ، خود بلاول اور زرداری بھی نواز شریف کو بہت برا بھلا کہتے رہے ہیں مگر ان کی توپوں کی بمباری نسبتاً کم ہی رہی ہے ، ویسے بھی ریاض خیرآبادی مرحوم بہت عرصہ پہلے ہی پاکستانی سیاست کے متعلق کیا خوب فرما گئے ہیں ، جسے پیر ومرشد آغا شورش کاشمیری مرحوم و مغفور اپنی تقاریر میں اکثر دہرایا کرتے تھے کہ ،میرے ملک کی سیاست کا حال مت پوچھو ، گھِری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں، گویا پاکستانی سیاست ایک طوائف کی مانند ہے جس پہ جب چاہا تماش بینوں کی طرح فقرے کس کر اس کا مزاق اڑا لیا گیا ،اور کبھی اگر دل چاہا تو سینے سے لگانے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ دینی تناظر میں دیکھا جائے تو بد اخلاقی کو بہت ہی برا فعل قرار دیا گیا ہے اور رائج سیاست میں جب تک دینی اقدار کی پاسداری کو فضیلت نہیں دے دی جاتی ، بداخلاقی کے مظاہر منظر عام پہ آ کر جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہی رہیں گے۔ عظیم درویش شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم اس حوالے سے کیا خوب فرماگئے ہیں کہ، جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو. جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی، لہٰذا سیاست میں دینی اقدار کی شمولیت کو اہمیت دینے سے ہی اخلاق درست کئے جا سکتے ہیں ، جس کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا

سندھ میں دھوبی کے اکاؤنٹ سے اربوں روپے کا لین دین ، ایف بی آر کا نوٹس

سندھ کے شہر گھوٹکی کے گاؤں ولومہر کا ایک غریب دھوبی ،جو کہ دو سال پہلے سردار غلام محمد میں سینیٹری ملازم تھا ، اس کے اکاؤنٹ سے بارہ ارب اور اٹھتر کروڑ سے زائد رقم کی ٹرانزیکشن پر ایف بی آر نے اسے گزشتہ روز نوٹس بھیج کر تفتیش کے لئیے دفتر طلب کر لیا ہے ۔ جس پر بے چارہ دھوبی جو اتنی بڑی رقم کے لین دین کے باوجود بھی دھوبی کا دھوبی ہی رہ گیا ہے ، سخت پریشان ہے ۔ اسے چاہئیے کہ بیان حلفی جمع کروا دے کہ تمام ادارے میرے اکاؤنٹ سے ٹرانسفر کی جانے والی کل رقم واپس اکاونٹ میں لے آئیں اور اس کا کچھ حصہ اسے دے کر بقیا تمام رقم سرکاری خزانے میں جمع کروا دیں ، اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا ، کیونکہ وہی اس اکاؤنٹ کا مالک رہا ہے جس سے اتنی بڑی رقم کی ٹرانزیکشن ہوئی ہے ۔ اہم ترین بات تو یہ ہے کہ جس شوگر مل میں وہ ملازمت کرتا رہا ہے، اور جسے چھوڑے ہوئے بھی اسے دو سال ہو چکے ہیں ، وہ کس کی ملکیت میں ہے، اور جن لوگوں کے ساتھ اس کے اکاؤنٹ سے رقوم کا لین دین ہوتا رہا ہے ، وہ کون ہیں ، امید ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومتی ادارے سارا کچا چٹھا کھول دیں گے ، اور غریب دھوبی کی جان بھی چھوٹ جائے گی ۔ متعلقہ بینک کے عملے کی طلبی بھی بہت ضروری ہے تاکہ یہ بھی تو پتہ چلے کہ اکاؤنٹ کھولا کیسے گیا۔ اس سے پہلے بھی کئی افراد جن میں وفات پا جانے والوں کے ساتھ باورچی ، ڈرائیور ، جوس والے اور دیگر گھریلو ملازمین بھی شامل ہیں ،مذکورہ دھوبی جیسی ہی صورت حال کا شکار ہو چکے ہیں ، دیکھئے یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمتا ہے ۔کالا دھن بچانے والوں کے حوالے سے فی الحال دلی کیفیت کچھ یوں ہے کہ ، محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

 مزار قائد پہ نعرے بازی ، کیپٹن (ر) صفدر اعوان گرفتار

قبروں کا بھی ایک تقدس ہوتا ہے ، اور بانیِ پاکستان کی قبر تو بہرحال اس لحاظ سے بھی زیادہ واجب الاحترام ہے کہ اس میں دفن وہ شخصیت ہے جسے ہر عام و خاص ادب سے بابائے قوم کہتے ہیں ۔ فاتح خوانی کر کے اور مزار کے احاطے سے باہر نکل کر جتنا چاہے گلے پھاڑ لیتے ، وہیں قبر کے سرہانے نعرے بازی کر کے مریم نواز اور دیگر نون لیگی افراد سمیت صفدر اعوان نے جو حرکت کی ہے ، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ جب کسی کے برے دن آتے ہیں تو اللّٰہ کریم کی طرف سے اس کی عقل پہ پردہ ڈال دیا جاتا ہے ۔ تبھی انسان سے ایسی حرکتیں سر زد ہوتی ہیں جیسی موصوف نے اپنی بیگم اور پارٹی ورکروں کے ساتھ مل کر مزار قائد پہ عین قبر کے اردگرد گھوم کر فرمائی ہیں ۔ قبرستان کو شہر خاموشاں بھی کہا جاتا ہے گویا وہاں نہ قبروں کے مکین بول چال کرتے ہیں اور نہ ہی حاضری دینے والے ، تلاوت تک آہستگی سے کی جاتی ہے ، حکم بھی ہے کہ قبرستان جایا کرو کہ موت یاد رہتی ہے،ان کو نعرے یاد آ گئے ، قائد اعظم کی قبر کیا ان تمام تقاضوں سے مبرا ہے کہ وہاں جا کر بجائے ان کے ایصالِ ثواب کے لئیے خاموشی سے اللّٰہ کریم کے حضور مکمل حضوریِ دل سے دعائیں کی جاتیں ، انہوں نے نعروں کی شکل میں طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا، کہ ووٹ کو عزت دو ، گویا مزار کا تقدس پامال کر کے صاحب مزار سے عزت کا سوال کیا جاتا رہا ، اور وہ بھی باجماعت گلے پھاڑ کے نعروں کی شکل میں ، شرم ان کو مگر نہیں آتی ، موصوف صفدر اعوان کو تو گرفتار کر لیا گیا ہے اور امید ہے کہ ان کو دیگر سزا ملنے کے ساتھ قبر پہ حاضری دینے کے آداب بھی سکھائے جائیں گے تاکہ آئندہ ایسی کسی بھی بدتہذیبی اور بدتمیزی سے بچا جا سکے جو مذکورہ افراد نے پی ڈی ایم کے کراچی میں ہونے والے دوسرے جلسے میں روانگی سے پہلے قائد کے مزار پہ حاضری دینے کے دوران کی ہے ۔

___________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں