تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 10)، تحریر: اے آر بابر

جزا اور سزا کے ذریعے معاشرہ ترقی کرتا ہے ، وزیراعظم عمران خان 

کسے نہیں پتہ اور کون لاعلم ہے اس بات سے ، نہ ہی کوئی اس بات کی حقانیت کا انکاری ہے ، بالکل سچ فرمایا ، گویا اصل مسئلہ اس بات کو ماننے یا نہ ماننے کا تو ہے نہیں ، مصیبت صرف اتنی ہے کہ اس پہ عمل ہوتا کوئی نہیں دیکھ رہا ۔جس کی سخت ترین ضرورت ہے۔ اگرجزا و سزا کا موجودہ نظام یونہی چلتا رہے گا، اور لوگ ظالم کو سزا ملتے اور حقدار کو جزا نہ ملتے دیکھ کر سالہا سال صرف کڑھتے ہی رہیں گے، تو ایسی باتیں سن کر یا پڑھ کر کون متاثر ہو گا ، عوام الناس میں سے تو شاید کوئی بھی نہیں ، ہاں البتہ وہ وفاقی وزراء اور پارٹی عہدیداران ایسی باتوں پہ ضرور سر دھنتے انہیں سراہتے رہیں گے، جن کو گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اپنی ہی زیر قیادت سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں مذکورہ بیان دے کر اپنی شیریں بیانی سے محظوظ کیا ہے ۔ عمل بھی کریں جناب، دو سال سے زائد عرصہ بیت گیا، لیکن ہنوز دلی دور است ، اس حوالے سے نتیجہ خیز اقدامات کرنے سے ہی پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بکھرنے سے بچ سکتا ہے ، ورنہ ، جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی

کرپشن کیسیز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا ، وزیر اعظم عمران خان

سیاسی کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کے قائد وزیر اعظم عمران خان نے بیان تو ارشاد فرما دیا ، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اگرچہ بالآخر منطقی انجام تک تو پہنچیں گے ہی ، مگر کب تک ، کیونکہ گا ، گے ،گی اور چُکا ہے ،چُکے ہیں اور چُکی ہے میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جن کے خلاف کیسیز ہیں وہ ملک کے اندر اور باہر یوں دندناتے پھر رہے ہیں ، کہ ان میں سے جب بھی کبھی کسی کاجی کرتا ہے وہ منہ اٹھا کے مہنگائی کی آڑ میں سر عام اپنا وہ مافی الضمیر بیان کرنا شروع کر دیتا ہے ، جو کہ سرا سر حکومت اور فوج پہ تنقید کرنے والے جذبات پہ مشتمل ہوتا ہے ۔ اگر قانونی تقاضے پورے کرنے میں اتنی دیر لگتی ہے تو اس تمام قانونی طریقہ کار کو تبدیل کیوں نہیں کر لیا جاتا ، عام لوگ تھانے کچہریوں میں حصول انصاف کے لئیے جس طرح سالہا سال ذلیل و خوار کئیے جاتے ہیں ، وہ سلسلہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے ،مگر جب حکومت بھی ، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے کے مصداق ، عدالتی کارروائیوں اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنے ہی قائم کردہ سینکڑوں کیسیز کو جلد از جلد نتیجہ خیز بنانے میں ابھی تک ناکام ہی ثابت ہوئی ہے، تو پھر فوری انصاف کے حصول کے لئیے ، اس تمام مروجہ قانونی طریقہ کار کے قواعد و ضوابط کو از سر نو ترتیب دے کر عام لوگوں کی دعائیں کیوں نہیں لے رہی ۔ امید ہے کہ حکومتی دماغ ان گذارشات پہ دھیان دیں گے اور اس پہ بھی کہ ، کر بھلا ہو بھلا انت بھلے کا بھلا

نواز شریف کی عدالت طلبی کا اشتہار شائع ، لندن میں عوامی مقامات پہ بھی چسپاں کرنے کی ہدایت ، اسلام آباد ہائیکورٹ ڈویژن بینچ

کبھی جو حضور اعلٰی تھے ، اب مفرور اعلیٰ ہو چکے ، دو پاکستانی اخبارات اور ان کے لندن ایڈیشن میں اردو اور انگریزی میں طلبی کے اشتہارات شائع ہو چکے، اور معزز عدالت کے ڈویژن بینچ کے حکم پر پاکستانی ہائی کمیشن لندن کو ھدایات جاری کی گئی ہیں کہ ان اشتہارات کو برطانیہ میں نواز شریف کے رہائشی علاقے اور دیگر عوامی مقامات پہ لگایا جائے ۔اس حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی مکمل خبر پڑھ کر ایک شعر بار بار اپنا احساس دلا رہا ہے اور وہ یوں ہے کہ ، لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا ، ہر سر کے ساتھ ایک فقط سنگ رہ گیا ۔ مذکورہ کیفیت تو تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی قبرستان جا کر لوگوں کی قبروں کے کتبوں پہ نظر ڈالے اور عبرت پکڑے ،لیکن ایسی صورت حال میں کسی کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی جب وہ دیار غیر میں وہاں کے در و دیوار پہ اپنے پیدائشی ملک کی عدالت کی طرف سے اپنی طلبی کے اشتہارات دیکھے بھی اور پڑھے بھی ، اور وہ شخص تین مرتبہ اپنے ملک کا وزیر اعظم بھی رہ چکا ہو۔گویا ، دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو ، کی عملی تصویر ، استغفِرُاللہ ۔ بہرحال لگ یہی رہا ہے کہ معاملات اب بہت تیزی سے سمیٹے جانا شروع کر دئیے جائیں گے ، اور تمام کرپٹ لوگ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا صرف ایک ہی مصرعہ پڑھا کریں گے ، کیونکہ امید ہے کہ اس کے علاوہ انہیں اور کچھ یاد ہی نہیں رہے گا ، مصرعہ ہے ، پھس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا

_________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

جزا اور سزا کے ذریعے معاشرہ ترقی کرتا ہے ، وزیراعظم عمران خان 

کسے نہیں پتہ اور کون لاعلم ہے اس بات سے ، نہ ہی کوئی اس بات کی حقانیت کا انکاری ہے ، بالکل سچ فرمایا ، گویا اصل مسئلہ اس بات کو ماننے یا نہ ماننے کا تو ہے نہیں ، مصیبت صرف اتنی ہے کہ اس پہ عمل ہوتا کوئی نہیں دیکھ رہا ۔جس کی سخت ترین ضرورت ہے۔ اگرجزا و سزا کا موجودہ نظام یونہی چلتا رہے گا، اور لوگ ظالم کو سزا ملتے اور حقدار کو جزا نہ ملتے دیکھ کر سالہا سال صرف کڑھتے ہی رہیں گے، تو ایسی باتیں سن کر یا پڑھ کر کون متاثر ہو گا ، عوام الناس میں سے تو شاید کوئی بھی نہیں ، ہاں البتہ وہ وفاقی وزراء اور پارٹی عہدیداران ایسی باتوں پہ ضرور سر دھنتے انہیں سراہتے رہیں گے، جن کو گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اپنی ہی زیر قیادت سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں مذکورہ بیان دے کر اپنی شیریں بیانی سے محظوظ کیا ہے ۔ عمل بھی کریں جناب، دو سال سے زائد عرصہ بیت گیا، لیکن ہنوز دلی دور است ، اس حوالے سے نتیجہ خیز اقدامات کرنے سے ہی پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بکھرنے سے بچ سکتا ہے ، ورنہ ، جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی

کرپشن کیسیز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا ، وزیر اعظم عمران خان

سیاسی کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کے قائد وزیر اعظم عمران خان نے بیان تو ارشاد فرما دیا ، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اگرچہ بالآخر منطقی انجام تک تو پہنچیں گے ہی ، مگر کب تک ، کیونکہ گا ، گے ،گی اور چُکا ہے ،چُکے ہیں اور چُکی ہے میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جن کے خلاف کیسیز ہیں وہ ملک کے اندر اور باہر یوں دندناتے پھر رہے ہیں ، کہ ان میں سے جب بھی کبھی کسی کاجی کرتا ہے وہ منہ اٹھا کے مہنگائی کی آڑ میں سر عام اپنا وہ مافی الضمیر بیان کرنا شروع کر دیتا ہے ، جو کہ سرا سر حکومت اور فوج پہ تنقید کرنے والے جذبات پہ مشتمل ہوتا ہے ۔ اگر قانونی تقاضے پورے کرنے میں اتنی دیر لگتی ہے تو اس تمام قانونی طریقہ کار کو تبدیل کیوں نہیں کر لیا جاتا ، عام لوگ تھانے کچہریوں میں حصول انصاف کے لئیے جس طرح سالہا سال ذلیل و خوار کئیے جاتے ہیں ، وہ سلسلہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے ،مگر جب حکومت بھی ، تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے کے مصداق ، عدالتی کارروائیوں اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنے ہی قائم کردہ سینکڑوں کیسیز کو جلد از جلد نتیجہ خیز بنانے میں ابھی تک ناکام ہی ثابت ہوئی ہے، تو پھر فوری انصاف کے حصول کے لئیے ، اس تمام مروجہ قانونی طریقہ کار کے قواعد و ضوابط کو از سر نو ترتیب دے کر عام لوگوں کی دعائیں کیوں نہیں لے رہی ۔ امید ہے کہ حکومتی دماغ ان گذارشات پہ دھیان دیں گے اور اس پہ بھی کہ ، کر بھلا ہو بھلا انت بھلے کا بھلا

نواز شریف کی عدالت طلبی کا اشتہار شائع ، لندن میں عوامی مقامات پہ بھی چسپاں کرنے کی ہدایت ، اسلام آباد ہائیکورٹ ڈویژن بینچ

کبھی جو حضور اعلٰی تھے ، اب مفرور اعلیٰ ہو چکے ، دو پاکستانی اخبارات اور ان کے لندن ایڈیشن میں اردو اور انگریزی میں طلبی کے اشتہارات شائع ہو چکے، اور معزز عدالت کے ڈویژن بینچ کے حکم پر پاکستانی ہائی کمیشن لندن کو ھدایات جاری کی گئی ہیں کہ ان اشتہارات کو برطانیہ میں نواز شریف کے رہائشی علاقے اور دیگر عوامی مقامات پہ لگایا جائے ۔اس حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی مکمل خبر پڑھ کر ایک شعر بار بار اپنا احساس دلا رہا ہے اور وہ یوں ہے کہ ، لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا ، ہر سر کے ساتھ ایک فقط سنگ رہ گیا ۔ مذکورہ کیفیت تو تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی قبرستان جا کر لوگوں کی قبروں کے کتبوں پہ نظر ڈالے اور عبرت پکڑے ،لیکن ایسی صورت حال میں کسی کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی جب وہ دیار غیر میں وہاں کے در و دیوار پہ اپنے پیدائشی ملک کی عدالت کی طرف سے اپنی طلبی کے اشتہارات دیکھے بھی اور پڑھے بھی ، اور وہ شخص تین مرتبہ اپنے ملک کا وزیر اعظم بھی رہ چکا ہو۔گویا ، دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو ، کی عملی تصویر ، استغفِرُاللہ ۔ بہرحال لگ یہی رہا ہے کہ معاملات اب بہت تیزی سے سمیٹے جانا شروع کر دئیے جائیں گے ، اور تمام کرپٹ لوگ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کا صرف ایک ہی مصرعہ پڑھا کریں گے ، کیونکہ امید ہے کہ اس کے علاوہ انہیں اور کچھ یاد ہی نہیں رہے گا ، مصرعہ ہے ، پھس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا

_________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں