تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 11 ) تحریر: اے آر بابر

مہنگائی کی وجہ سے مجھے سب سے زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے ،وزیر اعظم عمران خان

اکبر الہ آبادی مرحوم نے لیڈروں کے متعلق کیا خوب فرمایا ہوا ہے کہ ، قوم کے غم میں ڈنر کھاتا ہے حکام کے ساتھ ، رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ ۔ دو روز پیشتر مہنگائی کے تناظر میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم کے بقول مصنوعی مہنگائی کے خلاف سخت کارروائی ہو گی ، اس حوالے سے انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور دگر وزراء و افسران کو ہدایات بھی جاری کی ہیں ۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ مہنگائی کا جن یک دم سے تو بوتل سے باہر نہیں نکل آیا، اس میں تو بتدریج اضافہ ہونا شروع ہوا، اور جب گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کی شکل میں اپوزیشن جماعتوں نے سولہ اکتوبر کو جلسہ کیا تو اس جلسے میں عوام کی بھر پور شرکت کو یقینی بنانے کے لئے پی ڈی ایم نے اپنے تشہیری بینرز پہ اس جلسے کے انعقاد کا محرک بھی مہنگائی ہی کے عنصر کو قرار دیتے ہوئے حکومت کی دکھتی ہوئی رگ پہ ہاتھ رکھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ مہنگائی کی آڑ میں مقررین نے فوج کے اعلیٰ افسران کو ہی بلواسطہ اور بلا واسطہ تنقید کا نشانہ بنا کر دلوں کی بھڑاس نکالی ۔ اب مہنگائی کے خلاف ٹائیگر فورس بنانے، سہولت بازار قائم کرنے کے ساتھ دیگر اقدامات کرنے سے، کیا مہنگائی کا گراف نیچے آ جائے گا ، اس کے لئے چند دن انتظار کرنا پڑے گا ۔ اگر قابو نہ پایا گیا تو ایک بات تو یقینی ہے کہ گو لوگوں کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے مگر ان کے اجسام میں اتنی قوت بہرحال باقی ہے کہ وہ آئندہ اس حوالے سے کسی بھی حکومت مخالف مظاہرے میں تن اور من کے ساتھ شرکت ضرور فرمائیں گے ، دھن چونکہ ان کے پاس ہے نہیں اس لئیے اسے ان کے ساتھ شامل کرنا مناسب نہیں لگ رہا کیونکہ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہئے چاہئیے ، اور حقیقت یہی ہے کہ غریب عوام بہت پریشان ہے ، اور جنہوں نے اس امید پر پی ٹی آئی کو اپنے ووٹوں سے نوازا تھا کہ یہ جماعت عمران خان کی سربراہی میں برسرِ اقتدار آ کر کرپشن زدہ افراد سے لُوٹے ہوئے پیسوں کی دھڑا دھڑ وصولی کر کے ان کی فلاح و بقا کا باعث ثابت ہوگی ، وہ اب مہنگائی کی موجودہ صورت حال پہ خاصے رنجیدہ اور مایوسی کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔ جب تک جزا اور سزا کا عمل بلاتخصیص سیاسی وابستگیوں کے مکمل طور پر فعال نہیں کر لیا جاتا ، ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ غم کی شام اور افسوس کی رات تو آ سکتی ہے ، مگر سکھ کا سویرا مایوسیوں کے بادل میں ہی چھپا رہ کر دل تڑپاتا رہے گا ۔ مہنگائی اگر مصنوعی ہے تو اس کے کرنے والوں کو، اپنی دوبارہ فعالیت کے بعد کیا خلافتِ عثمانیہ نکیل ڈالے گی ۔ ابھی تو ہم نے کشمیر آزاد کرانا ہے ، غزوہ ہند کی تیاری کرنی ہے ، اقوام عالم میں سر بلند کرنا ہے ،ملکوں کی تقدیروں کے فیصلے کرنے ہیں ، جبکہ فی الوقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ مصنوعی مہنگائی پیدا کر دی گئی اور حکومت ایسا کرنے والوں کو عبرت کا نشان نہیں بنا رہی ۔ مایوسی بہرحال کفر ہے ، اللّٰہ کریم حکومت کو اس ازیت سے عوام کی جلد از خلاصی کروانے کی توفیق دے ، آمین

 چاہے رات دیر تک بیٹھنا پڑے ، احتساب عدالتیں روزانہ سماعت کر کے فیصلہ کریں ،چیف جسٹس سپریم کورٹ 

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی پہ مشتمل تین رکنی بنچ نےاحتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کے از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی کیس میں التوا نہ دیا جائے اور اس حوالے سے معزز بنچ نے حکومت کو ایک سو بیس مذید احتساب عدالتوں کے قیام کے لئیے حکومت کو ایک مہینے کی مہلت بھی دی ہے ۔ اللّٰہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور عوام کو لُوٹنے والوں پہ احتسابی شکنجہ کچھ اس طریقے سے کسا جائے کہ عوام کے کانوں میں ان کی چیخوں کی آوازیں متواتر پڑتی رہنا شروع ہو کر رس گھولتی رہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر فیصلے ہونگے تو مجرم ثابت ہونے والوں کو سزائیں بھی ملنا شروع ہو جائیں گی ، جس سے نفسیاتی طور پر بھی عوام پہ مثبت اثرات مرتب ہونگے اور انہیں اس بات کی تسلی ہو گی کہ انصاف کے تقاضے ان کے جیتے جی ہی پورے ہو رہے ہیں اور انہیں وفات پا کر اور دوسرے جہان جا کر آہ و فغاں کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔ کسی بھی چیز کو اس کے جائز مقام سے ہٹانا ہی ظلم ہے اور ظالم کی سرکوبی اور مظلوم کی داد رسی کے لئیے ہی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے ، انصاف دینے اور مقدمات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئیے اگر احتساب عدالتوں میں ججوں اور عملے کو رات گئے تک بھی بیٹھنا پڑتا ہے تو انہیں بیٹھنا چاہئیے تھا ، اس کے لئیے بہتر تو یہ ہوتا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو اس حوالے سے انہیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ، لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اب حکومت کو بھی ایک مہینے کے اندر اندر مذید ایک سو بیس احتساب عدالتیں قائم کر کے اور انہیں مکمل فعال کر کے عوام کے دکھوں کا بھر پور مداوا کرنا چاہئیے، کیوں کے حکومت بذاتِ خود بھی احتساب کا نعرہ لگا کر ہی معرض وجود میں آئی ہوئی ہے، اس لئیے اس معاملے میں اس نے اگر تساہل پسندی کا مظاہرہ کیا تو عوام جو مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی اس سے بدگمان ہیں ،وہ تو اپنی قسمت کو روئیں گے ہی ،تاریخ بھی اسے معاف نہیں کرے گی ، آزمائش شرط ہے

نواز شریف کو ڈی پورٹ کیا جائے ،پاکستان کا برطانیہ سے مطالبہ

وزیراعظم کے مشیر مرزا شہزاد اکبر نے برطانوی حکام کو لکھے گئے اپنے خط میں حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نواز شریف کو واپس بھیجنے میں اپنا کردار ادا کرے اور اس حوالے سے انہوں نے خط میں مزید استدا کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں برطانوی حکومت پاکستان کی معاونت کرے گی۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نواز شریف کو واپس بھیجنے کے سلسلے میں برطانوی حکومت اپنے وسیع اختیارات استعمال کرے ۔ گویا معمول کے اختیارات شاید نواز شریف کی واپسی کے لئیے ناکافی ہیں جو برطانوی حکام سے وسیع اختیارات کو استعمال کرنے کا کہا جا رہا ہے ، سیاسی پناہ کا سہارا لینے کا قانونی طریقہ اپنا کر ،برطانیہ میں عارضی اور بعض اوقات مستقل سکونت اختیار کر لینا ایک عام سی بات ہے ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ چلو الطاف حسین تو وہاں کا پاسپورٹ لے کر برطانوی شہری بن چکا ہے اس لئیے اس کی واپسی تقریباً نا ممکنات میں سے ہے، مگر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو بذات خود کرپشن زدہ اور وہاں رہائش پذیر ہے ، اسے اب تک واپس کیوں نہیں لایا جا سکا ، کیا اس کی حیثیت نواز شریف سے بڑھ کر ہے ، اور اگر وہ موصوف واپس نہیں لائے جا سکے تو نواز شریف کو کیسے واپس لایا جا سکے گا ، یہ حکومتی بیانیے پہ سوالیہ نشان ہیں ۔ اگرچہ مزکورہ خط میں نواز شریف کی کرپشن زدہ حکایات بھی رقم کی گئی ہیں مگر کیا برطانوی حکومت اس خط کے مندرجات پہ یقین کر لے گی ، نواز شریف تو اقرار کرنے سے رہے ۔ بہرحال سولہ اکتوبر کو پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ میں کئیے گئے جلسے سے اپنے نشریاتی خطاب میں میاں نواز شریف نے جس طرح کا لب و لہجہ اپنا کر حکومت اور فوج کے سربراہ کو تنقید کا نشانہ بنا کر بھارت کے عوام اور وہاں کی حکومت کے لئیے خوشیاں منانے کا اہتمام کیا تھا ، اس کے بعد معاملاتِ احتساب و سزا کو ان کے منطقی انجاموں تک پہنچانے میں حکومت اب کسی مصلحت کا شکار ہو کر ھولا ہتھ رکھنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہی ۔ تمام صورت حال کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات بھی سچ ثابت ہو رہی ہے کہ وہ کسی بھی کرپٹ شخص کو این آر او دینے کا ارادہ نہیں رکھتے اور امید ہے کہ وہ دیں گے بھی نہیں۔ سینیٹ انتخابات سے پہلے اس حوالے سے بہت کچھ صاف دکھائی دینے لگے گا ، اگر مہنگائی نے لوگوں کو دیکھنے کے قابل رہنے دیا تو

___________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں