دُعائے شاہ جی، تحریر: عمران رشید

سالوں پہلے کی بات ہے۔ایک دن والدِ گرامی بھاءجی رشید مجھ سے کہنے لگے کہ آج خواجہ محمد اسلم لون کی طرف جانا ہے۔میں نے سر جھکا یا،جی کہا،ان کو ساتھ لیا اور چل پڑے۔
ریٹائرڈمنٹ کے بعد ان کی زندگی کا معمول تھا کہ ہر اتوار کے روز کسی نہ کسی سے ملنے خود چلے جاتے۔
خواجہ محمد اسلم لون کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
لون خاندان نے گوجرانولہ کی سیاست پر دو دہائیوں تک راج کیا ہے۔خود خواجہ صاحب دو دفعہ رکن قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی فیڈرل کونسل کے رکن رہے۔
والدِ گرامی خواجہ صاحب سے محوِ گفتگو ہو گئے تو میں ان کی باتوں سے لاتعلق ہو کر اک طرف خاموش بیٹھ گیا۔موضوع وہی مذہبیات،سماجیات اور سیاسیات تھے۔
لیکن کھانے کی میز پر ایک نام پہ یکدم میرے کان کھڑے ہو گئے۔وہ نام تھا امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری۔طبیعت میں اوائل عمری سے شاہ جی،مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان کی محبت اور عقیدت مندی موجزن رہی ہے۔
برصغیر پاک و ہند نے شاہ جی سے بڑا اردو زبان کا خطیب آج تک پیدا نہیں کیا۔وہ بولتے تو موتی رولتے ان کی زبان میں جادو اور لحنِ داؤدی تھا۔الفاظ ان کے سامنے دست بہ دستہ حاضر کھڑے رہتے۔عربی،اردو،فارسی اور پنجابی زبان کے وہ شہسوار تھے۔موقع کی مناسبت سے آیات قرآنی،احادیثِ نبوی اور روزِ مرہ کے محاورات کا برمحل استعمال ان پر ختم تھا۔نُدرتِ افکار اور جُراتِ للکار شاہ جی کی تقاریر کا ہمیشہ خاصہ رہی۔ہنستے مجمع کو رُلا دینا اور روتوں کو ہنسا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔خود شاعر تھے اور اپنی تقاریر میں اشعار کا استعمال بھی خوب کرتے۔کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا مجموعہ کلام “سواتی الا الحام” ان کے بیٹے نے ء1956 میں شائع کروایا۔
سید مودودی کہتے ہیں”وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے خطیب تھے”
علامہ اقبال کے تحسینی الفاظ”شاہ جی اسلام کی چلتی پھرتی تلوار ہیں”
محمد علی جوہر کے توصیفی الفاظ”وہ مقرر نہیں ساحر ہیں”
اور صاحبِ طرز مصنف مختار مسعود نے یہ کہہ کر دریا کو کُوزے میں بند کردیا “کہ اُن کے ہمسفر تو بہت تھے،پر ہمسر کوئی نہ تھا”
آغا شورش نے کہیں لکھا، شاہ جی کو قدیم دور کے اگر کسی عظیم مقرر سے تشبیہ دی جا سکتی تو وہ ایتھنز کے ڈیمو ستھینز تھے۔جن کا چار سو سال قبل از مسیح قدیم یونان میں فن خطابت میں طوطی بولتا تھا۔ہندوپاک میں ختم نبوت اور شاہ جی لازم و ملزوم ہیں۔ان کی ساری زندگی ختم نبّوت کے لیئے جہاد کرتے گزر گئی۔
فرمایا کرتے میری آدھی عمر ریل میں اور آدھی جیل میں گزر گئی۔
شاہ جی کے ذکر سے کئی اور باتیں ذہن میں در کر آئیں،مُلکِ عزیز کے باسیوں کے عمومی مزاج سے کبھی اُکتا بھی جاتے۔
ایک دفعہ کہنے لگے،میں نے اِن کو ساری زندگی قرآن سنایا پر میری آواز صدا ِبصحرا ثابت ہوئی،جہاں سے جواب ہی کوئی نہیں آتا۔اور یہ بھی کہ مسلمان کی ،”واہ واہ” اور “آہ آہ” کا کوئی اعتبار نہیں۔اور نفسیات کو کیسا باریکی سے جانتے تھے،کہا کرتے”مسلمان قوم ڈنڈے والے کے آگے آگے اور دولت والے کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے”.
ساری زندگی میں ان کا کوئی اثاثہ نہیں،پھر بھی اسی سر زمینِ پاک پر انہیں کافر کہا گیا۔
نام نہیں لِکھتا اُن مولانا کا آغا شورش کاشمیری نے 1960ء کی دھائی میں لاھور میں تقریر کرتے ہوئے اُن کو برسرِ عام للکار تے ہوئے کہا”ایک ڈیڑھ قامت کامُلّا بھی شاہ جی کو کافر کہتا ہے۔”مُفتی مُنقّا”-جس کی ساری زندگی میں کوئی جائیداد نہیں،گھر میں گیا تو ایسے پڑا تھا جیسے کوئی بےگوروکفن لاشہ،وہ بھی کافراور یہ مفتی، مسلمان”-
آج کل ڈیڑھ قامت تو نہیں پر ہاں منوں وزنی اسکالرز تو ضرور پائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح کے “فضلِ رحمانی”سے محفوظ رکھے جس کے باعث بارگاہِ ایزدی میں روزِ محشر حساب کتاب ہی طول اختیار کر جائے-اور ایسے “ساِجدُون”سے بھی اپنی پناہ میں رکھے،جن کی معیت میں ادا سجود کے بعد سجدۂِ سہو ادا کرنا پڑ جائے۔
موضوع سے بات یوں ہٹ گئی کہ آج بھی بیشتر علماء اکرام عوام الناس کو دین کی صحیح سمجھ ہی نہیں آنے دے رہے،ایک طرف تو غزوہ ہند کی تکرار ہے تو دوسری طرف اُسی سپاہ پہ یلغار۔
غزوہِ ہند بپا ہوتا ہے تو کون سا لشکر ان کے مخالف صف آراء ہو گا؟یہی تو سپاہ ہوں گی؛یا آسمانوں سے فرشتوں کا لشکر اُترے گا؟
دامن پہ کوئی دھّبہ،نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔
خیر بات ہو رہی تھی خواجہ صاحب کی۔
خواجہ محمد اسلم لون صاحب والد گرامی سے کہنے لگے،بھاءجی”مجھے سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے دعا دی تھی
یہ سارا کرم،یہ ساری عزت،یہ ساری شان و شوکت اسی دعا کا ثمرہ ہے میں کمسن تھا ایک دفعہ شاہ جی گوجرانولہ میں تشریف لائے،کوئی جلسہ تھا،کچھ دیر قیام ھمارے ھاں کیا تو مجھے گود میں بٹھا کر دعا دی”
دعا کے اثرات کہاں تک جاتے ہیں،انہی کے صاحب زادے خواجہ خالد عزیز لون پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ کر آج کل وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ مظبوط کررہے ہیں۔وہ وزیر اعلیٰ کے گوجرانولہ شکایات سیل کے انچارج ہیں۔ایک وہ وقت تھا کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو گوجرانولہ آئیں تو خالد عزیز لون کی گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھی تھیں۔اور آج وہ خود چل کر لوگوں کی شکایات سننے جاتے ہیں۔حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔”جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے،تب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا رہتا ہے”
شنید ہے کہ دعاۓ شاہ جی کے طفیل وہ لوگوں کی داد رسی میں شب و روز اپنی پوری توانائیوں سے مصروفِ عمل ہیں۔امید کرتے ہیں وہ یونہی اخلاص سے عدلِ نوشیرواں،عدل فاروقی اور عدل جہانگیری کا عَلم بلند کئیے رکھیں گے۔ورنہ یہاں تو حصول انصاف کے لئیے عمرِ نوح،صبرِایوب اور قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جاتا ہے۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق صحافی اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں