بڑھکوں کی بھڑاس، تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 12 ) تحریر: اے آر بابر

 نواز شریف کو لانے مجھے انگلینڈ بھی جانا پڑا تو جاؤں گا ، وزیراعظم عمران خان

اور وہاں پہلے سے موجود اپنے بچوں سے بھی مل آؤں گا ۔ اگر وزیراعظم کے جانے سے ہی نواز شریف کا واپس آنا مشروط ہے ، تو انہیں فی الفور برطانیہ روانہ ہو جانا چاہئیے ۔ جس کے لئیے انہیں اب جہانگیر ترین کے چارٹرڈ طیارے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی ، کیونکہ وہ اب ماشاء اللّٰہ بذاتِ خود پرائم منسٹر ہیں ، ویسے بھی چارٹر طیارے پہ اندرون ملک پروازیں ہی باآسانی کی جاسکتی ہیں ۔ گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مزکورہ بیان سے سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا قانونی طریقہ کار اپنا کر بھی نواز شریف کو واپس لانے میں کوئی رکاوٹ ہے ، جو وزیراعظم اس خدشے کا اظہار اور اس کے سدباب کا حل ،خود آپ وہاں جا کر اور انہیں پاکستان واپس لانے کو قرار دے رہے ہیں ۔ مناسب تو یہی ہے کہ وقت ضائع نہ کریں اور قانونی طریقہ کار اپنانے کے ساتھ خود بھی وہاں تشریف لے جائیں اور عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں کہ آیا ان کو واپس لایا بھی جا سکتا ہے یا نہیں ۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ہتھاں دیاں بنیاں دنداں نال کھولنیاں پیندیاں نیں ، یعنی ہاتھوں سے لگائی ہوئی گرہیں ، دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں ، موجودہ صورتحال سے ایسی ہی کیفیت کی عکاسی ہو رہی ہے ۔ جس پہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

پندرہ جنوری تک نواز شریف جیل میں ہونگے ، شبلی فراز ، جنوری سے پہلے حکومت گھر چلی جائے گی ، مریم نواز

ان متضاد بیانات کو نجومیانہ پشین گوئیاں کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا ، اگرچہ نہ تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نجومی ہیں جنہوں نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ بالا پشین گوئی نما دعویٰ فرمایا ہے اور نہ ہی مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز، جو گزشتہ روز مال روڈ چئیرنگ کراس پر بلوچ طلبہ کے دھرنے میں ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے شریک ہوئی تھیں اور انہوں نے وہاں میڈیا سے بات چیت
کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ حکومت بنی گالہ میں چھپ کر بیٹھی ہوئی ہے ، اور جتنے مرضی ہیں کیسز بنا لو ،اپنے منہ پہ ہی کالک ملو گے ۔ ان کے نزدیک گویا کسیز بنانا دراصل اپنے منہ پہ کالک ملنے کے ہی مترادف ہے ،اور اگر ایسا ہی ہے تو وہ تمام کیسز جو نون لیگ نے پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی نے ان کی جماعت کے خلاف بنائے ہوئے ہیں ،ان کے بنانے والوں نے کیا اپنے منہ کالک زدہ کئیے ہیں یا ابھی بھی مطلوبہ سیاہی کا بندوبست کیا جانا باقی ہے ۔ مبینہ طور پر اچھی خاصی تعداد میں وہ کیسز ابھی تک عدالتوں میں زیر التوا ہیں ، جو زیادہ تر کرپشن کے ہی ہیں۔ بہرحال دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ،ایک طرف وزیرِ موصوف، نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل یا کسی بھی دوسری جیل میں پندرہ جنوری تک پہنچانے کی چتاونی دے رہے ہیں اور دوسری طرف مریم نواز جنوری سے بھی پہلے پوری حکومت کو ہی چلتا کرنے کی باتیں کر رہی ہیں، اور عوام بیچارے پریشان ہیں کہ کس کو سچا سمجھیں، ایک وہ کہ جس کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں تھی ، اور بعد میں کئی نکل آئیں ،یا اسے جنہوں نے باجماعت نواز شریف کو برطانیہ رخصت فرما کر ثوابِ دارین حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ بہتر تو یہی ہے کہ عوام اس کے متعلق طبع آزمائی کرنے کے بجائے اپنے زرائع آمدن بڑھانے کی کوشش کریں تاکہ روزی روٹی کا حصول ممکن ہو سکے ، جو انہوں نے خود ہی تگ ودو کر کے اپنے لئیےحاصل کرنی ہے ، نا کہ ان کے لئیے ، شبلی فراز ، اور مریم نواز نے

_________________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں