اعلیٰ تعلیم اور بڑھکیں، تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 13 ) تحریر: اے آر بابر

 قومیں کپاس ، کپڑا بیچ کر نہیں تعلیم سے امیر ہوتی ہیں ،وزیر اعظم عمران خان

گزشتہ روز میانوالی کے دورے پر عیسیٰ خیل کیڈٹ کالج کے ہاسٹل کی افتتاحی تقریب میں، وزیراعظم عمران خان نے طلبہ سے اپنے خطاب میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کو قوموں کی ترقی کا ضامن اور موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کیلئے اشد ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ زرعی اجناس اور دیگر چیزوں کی خریدوفروخت سے ہی قومیں ترقی کی منازل طے نہیں کرتیں، بلکہ پائیدار ترقی اور اقوام عالم میں سر بلند ہونے کے لئیے تعلیم حاصل کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ گو ان کے خطاب کا مذکورہ حصہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا، ہمارے دینِ اسلام میں علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت اور مرد پہ فرض قرار دیا گیا ہے ، غزوہِ بدر میں جو پڑھے لکھےکفار، قیدی بنا لیے گئے تھے ان کی رہائی کے لئیے بھی یہی شرط رکھی گئی تھی کہ وہ ان مسلمانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے جو ان پڑھ ہیں ۔ اللّٰہ کریم نے اپنے پاک کلام یعنی قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے کہ ،کیا پڑھے لکھے اور ان پڑھ برابر ہو سکتے ہیں ۔گویااس حوالے سے تمام تر زور علم کے حصول اور اس کی ترویج و ترقی پہ ہی دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم کا فرمانا بجا ہے، مگر کیا پاکستان میں فی کس آمدنی اتنی ہے کہ ایک عام مزدور اپنے جگر گوشوں کو ابتدائی تعلیم ہی دلوا سکے ، اعلیٰ تعلیم تو بہت دور کی بات ہے ۔ فلاحی مملکت میں تو ایسا ممکن ہے مگر جہاں لوگ تہتر سال سے دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ہی کوہلو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھوم رہیں ہوں ،وہاں کیا سب سے پہلے انہیں اس دائرے سے باہر لانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے ۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لئیے تعلیم حاصل کرنا کسی طور بھی عیاشی سے کمتر نہیں ۔ دوسرا مسئلہ جو اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے،وہ ہے یکساں نصاب تعلیم ،چونکہ مختلف ادارے عوام کو اپنی پسند کی مختلف تعلیم مہیا کر رہے ہیں ، جیسے کہ مدرسوں میں علیحدہ ، سرکاری سکولوں کی الگ اور پرائیوٹ اداروں میں کہیں آکسفورڈ اور کہیں کیمبرج ، چناچہ ٹاٹ سکولوں کے فارغ التحصیل بچوں اور مہنگے اداروں کے بچوں کی شخصیات میں زمین اور آسمان کا فرق رہ جاتا ہے ، جو نوکریوں کے حصول سے لیکر روزمرہ کی زندگی کے دیگر معاملات میں عملی طور پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ پرائیوٹ اداروں میں پڑھانے والے اور سرکاری اداروں کے اساتذہ کرام کی تنخواہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، حالانکہ محنت پرائیوٹ اداروں کے اساتذہ قدرے زیادہ ہی کرتے ہیں کہ ان کی ملازمتیں ان کی فعالیت سے مشروط ہوتی ہیں ، اس پہ مستزاد یہ کہ پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ کو ملازمت کا تحفظ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم کی افادیت پہ وزیراعظم عمران خان ہی کی طرح ہر دور کے اعلیٰ حکومتی عہدیداران اپنے بیانات میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے تو رہے ہیں، مگر عملی طور پر صورتحال کچھ یوں ہے کہ اب بھی پاکستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کئیے ہوئے سینکڑوں افراد گھروں میں بے روزگار ہی بیٹھے ہوئے ہیں ، اور جو خوش قسمتی سے سرکاری یونیورسٹیوں میں پڑھا رہے ہیں وہاں بھی انہیں مختلف درجات میں تقسیم کر دیا گیا ہے ، یہ حال ہے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھنے والوں کا ، کوئی مستقل ہے کوئی کنٹریکٹ پہ ، کسی کی تنخواہ ہر سال بڑھ رہی ہے اور کوئی سالہا سال سے اسی ابتدائی تنخواہ کو ہی سینے سے لگائے دن گزار رہا ہے جو اسے ملازمت شروع کرتے وقت نصیب ہوئی تھی۔ حالانکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے ،جبکہ حاصل کر لینے کے بعد عمر کی بنیاد پہ درجہ بندیاں کر دینا ، کیا مناسب ہے ۔ استاد معاشی تفکرات می ہی گھرا رہے گا تو کیا وہ بہترین طریقے سے پڑھا سکے گا ، یقیناً نہیں ۔ لہٰذا وزیراعظم عمران خان اور انکی ٹیم کو ان معاملات پہ فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ، وگرنہ ہوتا یہی رہے گا کہ لوگ پاکستان میں جیسے تیسے اعلیٰ تعلیم تو حاصل کر ہی لیں گے، مگر اسے مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر بہتر طریقے سے واپس اپنے عوام کو ڈلیور نہیں کر پائیں گے، اور کینیڈا ، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، ڈنمارک جیسے ممالک میں مستقل سکونت اختیار کرنے کو ہی دورانِ حصولِ تعلیم ہی مقصد حیات بنا کر ، پاکستان کو خیر باد کرتے رہیں گے۔ اس صورتحال کو ہی برین ڈرین کہا جاتا ہے۔ امید ہے کہ حکومت بیان کردہ ان گذارشات پہ دھیان دے گی اور اس حوالے سے مزید جن اصلاحات کی ضروت ہے ان پہ سروے کروا کر عملی اقدامات کرنے میں کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا جائے گا ۔

برطانیہ بڑھکوں کو کچھ نہیں سمجھتا ، مریم نواز

گزشتہ روز جاتی عمرہ میں پی ڈی ایم کے کوئٹہ میں آج کے ہونے والے جلسے میں اپنی روانگی سے قبل نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ،کہ برطانیہ اپنے قانون کے مطابق چلتا ہے اور اسے بڑھکوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ محترمہ کا کہا بجا ہے دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر نے جرمنی کی قیادت کرتے ہوئے یورپ اور بالخصوص برطانیہ کی معیشت اور اداروں کو تباہی کے دھانے تک پہنچا دیا تھا ، تب بھی برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے اس بات سے آگاہ ہو کر کہ برطانیہ کی عدالتیں ان افراتفری کے ایام میں بھی بالکل درست کام کر رہی ہیں ، اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب انہیں کوئی فکر نہیں ، سب کچھ پہلے جیسا ٹھیک ہو جائے گا ۔ مریم نواز کو بخوبی علم ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی ہے اور صرف جزباتی دعوے کرنے سے ہی کوئی گوہرِ مراد نہیں پا سکتا۔ باقاعدہ ایک قانونی طریقہ کار اپنانا پڑتا ہے۔ گویا انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو جس میں انہوں نے خود برطانیہ جا کر نواز شریف کو واپس پاکستان لانے کی بات کی تھی ، ایک سیاسی بڑھک سے زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ الٹا یہ فرما کر پی ٹی آئی کے چئیرمن پہ ایک بھرپور پھبتی بھی کسی ہے کہ خان صاحب اس سے پہلے بھی کاغذات کا پلندہ لے کر الطاف حسین کو لینے برطانیہ گئے تھے ۔ گویا اگر انہیں واپس نہیں لایا جا سکا تو نواز شریف کو کیسے لایا جا سکتا ہے ۔ حالانکہ دونوں کیسز میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ الطاف حسین وہاں کا پاسپورٹ حاصل کر کے برطانوی شہری بن چکا تھا جبکہ میاں صاحب نے ابھی تک ایسی کوئی حرکت نہیں کی ہے ۔ مریم نواز کے اس حوالے سے بااعتماد بیان دینے سے اس بات کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو کہ پاکستان کو مطلوب ہیں انہیں بھی ابھی تک واپس نہیں لایا جا سکا ہے ، اور نواز شریف جو بہرحال اسحاق ڈار سے کہیں زیادہ بڑے لیڈر ہیں ، انہیں واپس لے آنا آسان کام ہر گز نہ ہو گا ، اور لگ بھی یہی رہا ہے کہ برطانیہ کا قانون ہی ان کی واپسی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا ۔ بہرحال اس حوالے سے سب سے دلچسپ بات تو وہ ہے جو کہ کوئٹہ روانگی کے موقع پر مریم نواز کے ساتھ کھڑے سینیٹر آصف کرمانی نے کہی ہے ،موصوف کا فرمانا تھا کہ نواز شریف اپنا علاج مکمل کروا کر خود ہی واپس آ جائیں گے ، گویا جب تک علاج جاری رہے گا میاں صاحب پاکستانی عدالتوں کو انتظار کرواتے رہیں گے ، سینیٹر آصف کرمانی نے وزیراعظم کو ،اپنے تئیں ایک مشورے سے بھی، یہ کہہ کر نوازنا ضروری سمجھا ہے کہ عمران خان وزیراعظم بورس جانسن کے زریعے چینی چور جہانگیر ترین کو تو واپس لائیں ۔ گویا، یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا،
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا ۔ القصہ بڑھکیں ہی بڑھکیں ہیں کچھ حکومتی کچھ غیر حکومتی ، اور اس تناظر میں عوام کی فی الحال جو کیفیت ہے وہ اس نصیحت نما فقرے سے بھرپور عیاں ہوتی ہے کہ ، سنتا جا شرماتا جا

اپنا تبصرہ بھیجیں