ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہئیے ، فضل الرحمان
ہمیں تو وہ حکومت چاہئیے جو حفظانِ صحت کے اصولوں پہ پنجاب کے پہلوانوں کی طرح عمل کرتی ہو ۔ پانی کی جگہ لسی پیتی ہو ،اور بل کی ادائیگی سرکاری خزانے سے کرتی ہو ، سلائس اور آملیٹ کی جگہ کھدیں اور پائے استعمال کرتی ہو ، ہیلی کاپٹروں پہ کھانے منگواتی ہو اور ان کو گرم رکھنے کے لئیے خاص مشین بھی سرکاری کھاتے سے منگوا کر قدرتی ذائقے برقرار رکھتی ہو ، شاید ان خصوصیات کے حامل عمائدین پہ مشتمل حکومت ہی سنجیدہ اور ذہین و فطین حکومت میں شمار ہوتی ہو گی ، مولانا کے نزدیک ، موصوف کل کوئٹہ میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے میں اپنی دلی تمنا کا اظہار فرماتے ہوئے مذید یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اسٹیبلیشمنٹ حکومت کی پشت پناہی سے دستبردار ہو جائے تو ہم اسے آنکھوں پہ بٹھانے کو تیار ہیں ۔ گویا مشرف دور میں متحدہ مجلس عمل کی خیبرپختونخوا میں بنی ان کی صوبائی حکومت کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ بالکل نہیں تھا ،اور اسی لئیے حضرت صاحب کی جماعت دیگر جماعتوں کی ہمراہی میں پانچ سال سابق صدر پرویز مشرف کو آنکھوں پہ بٹھا کر اقتدار کے جھولے جھولتی رہی اور جھلاتی بھی ۔ دوسری بات یہ کہ مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ حکومت کی پشت پناہی سے دستبرداری کا کہہ کر کے انہیں اپنی آنکھوں پہ بٹھانے کی جو آفر کی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بات اب براہ راست ترلے منتوں تک پہنچ چکی ہے ، پہنچنی بھی چاہئے کیونکہ موصوف اپنی اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے متعلق اچھا خاصا درد دل رکھتے ہیں اور وہ قطعاً یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ اسٹیبلیشمنٹ ایسی کسی حکومت کی پشت پناہی کرے جو چرسیوں اور بھنگیوں پر مشتمل ہو ، لیکن لمحہِ فکریہ تو یہ ہے کہ جن چرسیوں اور بھنگیوں کا صرف مولانا موصوف کو ہی پتہ ہے ، اسٹیبلشمنٹ کو اب تک پتہ کیوں نہیں چل سکا
مشرف نے بے نظیر بھٹو کو شہید کیا ، آج تک اس سے کسی نے نہیں پوچھا ، بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گزشتہ روز کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں اپوزیشن کے اتحاد، پی ڈی ایم کے حکومت مخالف تیسرے جلسے سے، اپنے وڈیو لنک سے کئے گئے خطاب میں مزکورہ بالا بیان ارشاد فرما کر ایک بات تو ثابت کر دی ہے کہ، جس طرح سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا بالکل ویسے ہی سیاستدانوں کی یاداشت قوم کے غم میں وقت گزرنے کے ساتھ اچھی خاصی مجروح ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، مگر جیسے کوئی بہرا انسان عموماً اپنی معمول کی گفتگو فرماتے ہوئے اپنی آواز کا لیول قدرے اونچا ،اس لئیے رکھتا ہے کہ اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید دوسرے بھی اسی کی طرح اونچا سنتے ہیں ، غلط فہمی اسی کا نام ہے ، لہٰذا بلاول بھٹو صاحب کی اگر یاداشت عوامی دکھ درد سمیٹتے اور سندھ کے عوام کو سہولتیں پہنچاتے متاثر ہو چکی ہے ،تو پھر بھی انہیں یہ گمان بالکل بھی نہیں کرنا چاہئیے کہ عوام کی یاداشت بھی متاثر ہو چکی ہے اور وہ اس وقت کو بھول چکے ہیں جب ، اسی پرویز مشرف نے بطور صدر ان کی پارٹی کے یوسف رضا گیلانی سے وزیراعظم پاکستان کا حلف لیا تھا ، اور بعد میں ان کے والد گرامی ،مشرف کی جگہ قصر صدارت میں براجمان ہو گئے تھے ، اور اسی پرویز مشرف کو پورے پروٹوکول کے ساتھ قصر صدارت سے رخصت بھی کیا گیا تھا ، وہی پرویز مشرف جس نے بیرون ملک روانہ ہونے سے پہلے اچھا خاصا وقت پاکستان میں ہی گزارا تھا ، اور تب برسر اقتدار تھی ان کی جماعت ، صدر اور وزیراعظم بھی اپنے ، گویا تمام تر اختیارات کے مالک، نہ کسی کا مواخذہ اور احتساب ، نہ بی بی شہید کے خون کا بدلہ نہ ورکروں کے جذبات کا احساس ،اس وقت کسی نے ان سے نہیں پوچھا، کل تیرہ سال بعد بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ذکر فرما کر موصوف نے نہ جانے کن سے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش فرمائی ہے ۔ اللّٰہ کریم بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت قبول فرما کر ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ، اور انکے بیٹے کو توفیق دے کہ وہ اقتدار کی خاطر ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں ہلکی پھلکی ہچکچاہٹ ضرور محسوس کیا کریں جن کی جماعت نے ان کے پاپا کے صدر پاکستان ہونے کے باوجود، ان کے خلاف گوجرانوالہ میں اپنے مقامی قائدین کی زیر قیادت گاڑیوں کے ایک بڑے جلوس میں اعلانیہ ایک نظم شہریوں کے گوش گزار کی تھی ، جس کے چند اشعار کچھ یوں تھے ، ہائے زرداری ہائے زرداری ، ملک کو لگ گئی یہ بیماری ، پہلے اپنی بیوی ماری ، اب ہے قوم کی آئی باری ، ہائے زرداری ہائے زرداری
_________________________________________
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔