ویلڈن عمران خان، مگر کشمیر، تھوڑا سچ اور سہی قسط ( 15) تحریر: اے آر بابر

پاکستان کمزور ریاست نہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لے ، پاکستان

امریکہ کے نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے، ریاست پاکستان کے اصولی موقف کو دھرا کر عوام کے دلوں کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے کہ ،اسرائیل کو بعض عرب ممالک کی طرف سے تسلیم کر لیا جانا ان کی داخلہ یا خارجہ پالیسیوں کی مجبوریوں کا شاخسانہ ہو سکتا ہے ، لیکن اس حوالے سے پاکستان اتنی کمزور ریاست ہر گز نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے اپنے اصولی اور بنیادی موقف سے انحراف کر لے ۔ گزشتہ روز گو منیر اکرم نے مذکورہ بیان دے کر ان اندرونی عناصر کا منہ اچھی طرح بند کر دیا ہے جو منتظر تھے کہ پاکستان جو آج تک سعودی عرب کی تقلید کرتا چلا آ رہا ہے ، شاید اس معاملے میں لچک کا مظاہرہ کرے گا ۔ حالانکہ پچھلے دنوں ایٹمی طاقت پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے مشہور اینکر کامران خان کو ان کے ٹی وی چینل کے لئیے اپنے انٹرویو میں کسی بھی سیاسی اور بین الاقوامی صورت حال کو پس پشت ڈالتے ہوئے واشگاف الفاظ میں یہ کہہ کر عوام کے دل جیت لئیے تھے کہ وہ اس لئیے اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے کہ ایسا کر کے وہ پھر اللّٰہ کو کیا جواب دیں گے ۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا ایسا دبنگ اور دینی تناظر میں اپنایا ہوا غیر لچکدار موقف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس مسئلے کو وہ صرف ایک بین الاقوامی سیاسی یا دنیاوی معاملہ ہی نہیں سمجھتے ،بلکہ ان کا دو ٹوک موقف اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وزیراعظم اس معاملے کو خالصتاً دینی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ اللّٰہ کریم نے واضح الفاظ میں قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ یہودی اور نصرانی مسلمانوں کے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔ وزیراعظم عمران خان کے نزدیک اسرائیل کو تسلیم کرنا گویا اللّٰہ کریم کی بارگاہ میں خود کو مجرم کی حیثیت سے پیش کرنے کے برابر ایک ایسا فعل ہے کہ جس کے لئیے انہیں اللّٰہ کریم کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا ۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اصل لڑائی اسلام اور کفر کی ہی ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے لیکر آج تک کے تمام تر تاریخی حقائق اس بات کو مذید تقویت پہنچاتے ہیں کہ یہودیوں نے عیسائیوں کو استعمال کر کے کمزور ایمان والے مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم بھی کیا اور انہیں اعلیٰ مناصب اور دولت و ثروت میں تول کر اسلامی تعلیمات اور ان پہ عمل پیرائی سے غافل کر دیا،جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان تو ہے مگر بلواسطہ یا بلاواسطہ یہودیوں کے ہی زیر اثر اور ہر میدان میں ان ہی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنسا ہوا ہے ، سودی نظام معیشت ہو یا فرقہ واریت ، مخلوط طرزِ تعلیم ہو یا دیگر غیر اسلامی رسومات جیسے دیگر معمالات، یہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا صحیح تشخص اجاگر کرنے ہی نہیں دے رہے ۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے اللّٰہ کو کیا جواب دیں گے ، ایک ایسا عمل ہے کہ جس پہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ، ویلڈن عمران خان

 مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی منزل دور نہیں ، گورنر پنجاب

گزشتہ روز کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم سیاہ منایا گیا ، واک بھی ہوئی ، گھروں پر سیاہ پرچم بھی لہرائے گئے ، بھارتی کونسل خانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے اور ریلیوں کا انعقاد بھی کیا گیا، مذمتی قراردادیں بھی منظور ہوئیں اور دھواں دار تقاریر بھی ارشاد فرمائی گئیں۔ لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور اس اجتماع میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت فرمائی ۔جس میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی گئی اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پہ زور دیا گیا ۔ جبکہ دوسری طرف کشمیر میں قابض بھارتی افواج نے فائرنگ کر کے یوم سیاہ کے موقع پر ہی ایک اڑتیس سالہ کشمیری شوکت احمد لون کو شہید کرنے کیساتھ ایک اکیس سالہ نوجوان ثاقب اکبر کو گرفتار کر لیا ۔ گویا بھارت نے ان تمام مذکورہ بالا احتجاجی مظاہروں کا عملی جواب اسی سفاکی اور بربریت سے دیا جس کا مظاہرہ وہ گزشتہ تہتر سال سے ایک تواتر کے ساتھ کر رہا ہے ، اور ہم اس مسئلے پر صرف عالمی برادری کی توجہ ہی مبذول کروانا فرض اولین سمجھ کر کشمیری مسلمانوں کو شہید ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر پہ لشکر کشی کا حکم یونہی تو نہیں دے دیا تھا ، وہ ہندو بنئیے کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے ۔ان کی زندگی وفا کرتی تو خطے کے حالات یقیناً ایسے نہ ہوتے جیسے اب ہیں ۔ جہاد کا جذبہ ابھارنے والے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے والے ہمارے نام نہاد علماء اور سیاستدان حصولِ اقتدار کی ہوس میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کئیے ہوئے ہیں اور کشمیری عوام تہتر سال سے، کشمیر بنے گا پاکستان، ایک تسلسل کے ساتھ پکار کر خاص طور پر پاکستان کی طرف منتظر امدادی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ، اور ہم یہاں رنگ ،نسل، فرقوں ، ذاتوں، برادریوں ، صوبائیت اور لسانیت کے تعصبات کو سینے سے لگائے ،ان کا ساتھ، اپنے اپنے طور پر صرف بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور مذمتی بیانوں کی شکل میں دے رہے ہیں۔اس تمام صورت حال کی منظر کشی کی منظوم ترجمانی کسی نے یوں کی ہے کہ،تلواریں بیچ کرخرید لیئے مصلے ہم نے، بیٹیاں لُٹتی رہیں, اور ہم دعا کرتے رہے۔ القصہ ، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ، تہتر سال باتوں میں ہی گزار دئیے گئے ، اب باتوں کا نہیں کچھ کر گزرنے کا وقت ہے ، جواز تو بےشمار ہیں اور خود بھارت کے ہی پیدا کردہ، وگرنہ سیاہ جھنڈے لہرانے اور مذمتی قراردادیں پاس کرنے سے بھارت کو پہلے کوئی فرق پڑا ہے اور نہ آئیندہ پڑے گا۔ حل صرف ایک ہی ہے ، الجہاد و الجہاد الجہاد والجہاد
_______________________________________

اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں