مقدٌس جیب کترے، تھوڑا سچ اور سہی ( قسط نمبر 16) تحریر: اے آر بابر

سارے جیب کترے سٹیج پر شور مچاتے ہیں، جیل جائیں گے ، وزیراعظم عمران خان

اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ وہ جیب کترے جو جیبیں کتر لینے کے بعد سٹیج یا کسی اور جگہ پہ شور مچانا شروع کر دیں ، صرف وہی جیل کی ہوا کھائیں گے ، ایسا ہر گز نہیں ، بلکہ خان صاحب کا فرمانا دراصل یہ ہے کہ کہ سٹیج پہ شور مچانے والے حقیقت میں جیب کترے ہیں لہٰذا وہ جیل میں ڈال دئیے جائیں گے۔ دو روز پیشتر ایوان اقبال میں وزیراعظم انصاف ڈاکٹرز فورم کی تقریب میں مذکورہ بیان ارشاد فرما رہے تھے ۔ جیب کتروں کا شور مچانا ،گویا ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوری والا معاملہ ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو مذکورہ افراد اب تک جیل میں کیوں نہیں ڈالے گئے ، کیا پاکستان کے رائج قوانین میں اتنے سقم موجود ہیں کہ عوامی جیبوں کو کتر کر اپنی تجوریاں بھرنے والے دیدہ دلیری سے اب سٹیجوں پہ بھاشن بھی دینا شروع کر چکے ہیں ، اور قانون ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنا ہوا ہے ۔صوبائی اور قومی اسمبلیوں سمیت سینیٹ جیسے ادارے، کہ جن کا کام ہی قانون سازی ہے ، اس حوالے سے کب اپنی فعالیت کا عملی مظاہرہ کرنے کے قابل ہوں گے ، غریب آدمی جوتا بھی چوری کر لے تو قانون انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتا ہے اور جن لوگوں نے سود پہ قرضے لے لیکر عوام کی اکثریت کو ننگے پاؤں چلنے اور دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے چکروں میں الجھا ہوا ہے ، وہ کیا یونہی دندناتے اور قانون کا مذاق اڑاتے پھریں گے، اور حکومتی ردعمل سوائے چند جذباتی دعوے اور جلی بھنی تقریریں فرمانا ہی رہ جائے گا ۔ ایک سو بیس احتسابی عدالتیں جو امید ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایک ماہ کے اندر کام کرنا شروع کر دیں گی ، ان کی تعداد کو مذید بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ، لیکن ایسا نہ ہو کہ انہیں فیصلے سنانے میں ہی موجودہ حکومت کے باقی ماندہ تین سال پورے ہو جائیں ، اور عوام ان جیب کتروں کو یونہی سٹیجوں پہ شور مچاتے ہی دیکھتے رہ جائیں ۔ اگر ایسا ہوا تو عوام یہ بات کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ گو وہ افراد بقول وزیراعظم، جیب کترے تو ہیں، لیکن کوئی عام گرے پڑے اور سڑک چھاپ جیب کترے بہرحال نہیں ہیں بلکہ بجا طور پر مقدس جیب کترے ہیں ،جن کی پاکیزگی قانون کے ہاتھ لگانے سے مجروح ہوتی ہے ۔ اس تاثر کو پیدا ہونے کا موقع دینا عوام کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف ہو گا ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عام جیب کترے احساس کمتری کا شکار ہو کر کہیں یہ شعر پلے کارڈوں پہ لکھ کر احتجاج ہی نہ کرنا شروع کر دیں کہ ،تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی،
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی

ایاز صادق کے بیان سے بھارت میں مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں ، وفاقی وزیر اطلاعات

مٹھائیاں بانٹی ہی تب جاتی ہیں جب خوشیاں دروازے پہ دستک دیتی ہیں ۔ ایاز صادق نے ابھیندن کی رہائی کے حوالے سے اسمبلی فلور پہ بیان دے کر بھارتی افواج اور بھارتی حکومت کی جس طرح بلواسطہ رطب السانی کی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا ہماری حکومت اور فوج ونگ کمانڈر ابھیندن کو گرفتار کر کے ڈر گئے تھے ، ایک ایسی عامیانہ اور بچگانہ سوچ کی عکاسی کرتا بیان ہے کہ جس پہ جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے ۔اگر ڈر کا عنصر ہی دامن گیر ہوتا تو کیا جہاز گرا کر اسے گرفتار کیا جاتا ، ایک فاطر العقل تو ایسا سوچ اور کہہ سکتا ہے مگر موصوف بظاہر تو اچھے خاصے ممبر قومی اسمبلی ہیں ، اور اسمبلی بھی پاکستان کی ہے ،بھارت کی نہیں ، پھر بھی ایسا بیان داغنا ، چہ معنی دارد ۔ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے ایاز صادق کو اس حرکت پہ معافی مانگنے کا مشورہ دیتے ہوئے انہیں متنبہ کیا ہے کہ معافی نہ مانگنے کی صورت میں قانون اپنا راستہ لے گا ۔ گویا وہ معافی نہیں مانگتے تو قانون انہیں گرفت میں لے گا اور وہ ضمانت کروا کر اپنا راستہ لے لیں گے ۔ کیا مذاق ہے ، کوئی سٹیج پہ افغانستان بارڈر پہ لگنے والی بھاڑ اکھاڑ پھینکنے کی باتیں کر رہا ہے، اور اردو زبان کو برا بھلا بھی کہا جا رہا ہے ، کوئی بلوچستان کو آزاد ریاست بنانے کی باتیں کر رہا ہے اور کوئی قائد اعظم کی قبر کا تقدس پامال کر رہا ہے ، اور اب یہ موصوف اپنے ہی ملک کی افوج اور حکومت کو نیچا دکھانے کی ناکام کوشش فرما کر بھارتی افواج اور وہاں کی عوام کو اس حد تک خوشیاں منانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہاں لوگ مٹھائیاں تک بانٹنا شروع ہو گئے ہیں ۔ امریکہ ، برطانیہ ،اسرائیل ، سعودی عرب اور بھارت ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ، اور ان میں سے کسی ایک کی خوشی پوری تھالی کی ہی خوشی کے مترادف ہے ۔ پی ڈی ایم کی شکل میں اپوزیشن جماعتوں میں سے نون لیگی رہنماؤں کی ایسی حرکات و سکنات سے ایک بات البتہ واضح ہو گئی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور خاص طور پر عمران خان ان کو این آر او دے نہیں رہے ،اور نہ اب کسی کو اس بات کی حکومت سے توقع رکھنی چاہیے۔ فوجی ترجمان میجر جنرل افتخار بابر کا اس حوالے سے یہ کہنا کہ موجودہ سیاسی بیان بازی سے فوجی افسران سے لیکر سپاہی تک تمام رینکس میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے ، معاملہ کی سنگینی کا عکاس ہے ۔چناچہ جہاں حکومت وقت اور ملکی افوج کا موقف کسی بھی معاملے میں ایک ہو جائے ، وہاں زبان درازوں اور دشمن ملک کو خوشیاں مہیا کرنے والوں کے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا ہے ، اس کے لئیے تاریخ کا طالب علم ہونا ہی قطعاً ضروری نہیں ،صرف اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ، اور ایاز صادق نے بیان صادر فرما کر کس سے دوستی نبھائی ہے، اور کس سے دوشمنی روا رکھی ہے ، سب کو پتہ چل گیا ہے ۔ بعض احباب نون لیگی راہنماؤں کی ایسی حرکتوں کو چراغِ سحر سے تشبیہ دے رہے ہیں ، جو بہت جلد ،بجھا چاہتا ہے ۔ گویا یہی چراغ بجھیں گے تو روشنی ہو گی ، وہ روشنی جو ان چراغوں کی اوٹ میں چھپی ہوئی ہے ،بیداریِ عوام اور خوشحالی کی روشنی
______________________________________
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں