‘سورۃ القلم’ قرآن مجید کاارسٹھ واں سورۃ ،آیت ایک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”قسم ہے قلم کی،اورقسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں”
خصوصاً یہ بات قرآن مجید کی کتابت سے متعلق ہے،اورعموماٌ اس سے تحریر کی سادہ حُرمت پہ بھی قیاس کیا جاتا ہے۔زبانی اور تحریری الفاظ کا انسان جوابدہ ہو گا۔لفظوں میں ایک خاص تاثیر پوشیدہ ہوتی ہے،کہتے ہیں الفاظ خیالات کا لباس ہوتے ہیں۔ملکِ عزیز میں وہ دشنام طرازی جاری ہے کہ حیرت کسی طور کم ہونے کا نام نہیں لے رہی،الفاظ خود چیخ چیخ کر ،زبانِ حال سے ان کی تر دامنی اور لباس کے ‘اُجلے پن’کا پتہ بتا رہے ہیں۔میرا وطن پاکستان ہے،اور اپنے ملک سے مجھے وہ خاص نوع کی الفت اور محبت ہے،الفاظ جن کے اظہار سے قاصر اور تہی داماں ہیں۔یہ خطۂِ ارض باقی تو ہم بھی باقی،دنیا میں ہماری پہچان پاکستان ہے۔
یہ ہماری شناخت اور مرحوم امتِ مسلمہ کی بقاء کا ضامن ملک بھی ہے،ورنہ دوسرے عرب مسلمان ممالک تو یہود ونصاریٰ اور ہنود کی نظر میں محض تر نوالہ ہی تو ہیں۔پاکستان اسلامی دنیا کا ایٹمی طاقت کا حامل واحد ملک ہے اور اغیار کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ھم اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں،کس طرح ہماری سرحدوں کے نگہبان اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ہماری اور اس ملک کی حفاظت کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔اور یہی سپاہی،کمیشنڈ آفیسر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے جرنیل بن جاتے ہیں۔پھر انہی جرنیلوں پہ علماء کے اک گروہ اور سیاسی ناعاقبت اندیشوں کےگمراہ ٹولے کی ہرزہ سرائی سمجھ سے باہر ہے۔
یہ سپاہ،یہ لشکر،یہ فوج تو وہ ادارہ ہے،جن کا تابناک ماضی ان کے حال پہ شاہد اور پُکار پُکار کے کہہ رہا ہے۔۔
میرے ہمراہی اس طرح کریں گے جانیں نثار
مغفرت کی ذرّے ذرّے کو دعا دینی پڑے
اور اتنا کر دوں گا میں ماؤں کی محبت کو بلند
دل کے ٹکڑوں کو شہادت کی دعا دینی پڑے
اور خاکِ ارضِ پاک سے ایسے اٹھاؤں گا شہید
جن کے مدفن کو زمینِ کربلا دینی پڑے۔۔
اسلامیات کو دیکھیں تو بخاری میں رقم حدیث”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ کے راستے میں دشمن سے ملی ہوئی سرحد پر ایک دن کا پہرہ دنیاومافیہا سے بڑھ کر ہے”
سیاست دان تو ازل سے غرض پسند ٹھہرے،علماء تو اپنے دینی مرتبے کا کچھ خیال کریں،بقول علامہ اقبال۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔
ناحق بات پہ سیاست دانوں کی ہمرکابی؟
امیرِ شریعت سے پوچھا گیا،’شاہ جی سیاست’فرمایا۔۔۔”ہاں میں جانتا ہوں۔سیاست کے معنی ہیں مکر؛کلام اللہ میں بھی یہی معنی بیان ہوئے ہیں۔میں نے لفظ سیاست سے زیادہ کوئی شریر لفظ نہیں دیکھا،یہ خدع و فریب کے ایک ایسے اجتماعی کاروبار کا نام ہے جس سے بابو لوگ اغراض کی دکان چمکاتے ہیں۔”
بڑے لوگوں کے تقویٰ اور ان کی دینداری پر ہم لوگ کوئی حرف تو نہیں اٹھا سکتے،ازروئے شریعت جائز بھی نہیں۔مگر تاریخ تو پڑھ سکتے ہیں ناں۔تاریخ کے اوراق لفظ معافی سے خالی ہیں۔ صحیح تاریخ کا مزاج عادلانہ اور طبیعت سںنگدلانہ ہے۔اشارے کرتا چلوں۔۔کل کی بات ہے خلافتِ عثمانیہ کا زوال اور اس میں ہندوستان کے اکثریتی فرقے کا کردار۔”تعویذ بانٹے گئے کہ یہ پہن کر ترکوں کے خلاف لڑو،گولیاں اثر نہیں کریں گی۔آغا شورش کے ہفت روزہ چٹان سے اس پس منظر میں لکھے گئے دو مصرعے۔
خانقاہوں میں مریدوں کو نچانے والے
گولیاں ترک جوانوں پہ چلانے والے۔
دور ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں،وارداتوں اور سازشوں کے سلسلے اور انداز بدل جاتے ہیں۔
آج علماے احتجاج کس راہ پر گامزن ہیں؟دریدہ دہنی سے اجتناب کیا جائے۔
کل ترکی سپر پاور تھا،آج امتِ مسلمہ میں پاکستان اس رتبے پر فائز ہے۔موزوں نہیں کہ سیاست اور دین کو یکجا کر دوں،پر مسئلہ دو قومیت پر علامہ اقبال اور مولانا حسین احمد مدنی کا فکرو نظر کا اختلاف بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔
اب کی بات نہیں،مسلمانوں کے اجتماعی معاملات شروع سے ہی بگڑے ہوئے ہیں،قال الرسول پر ایمان لا کر بھی آلِ رسول کو ذبح کرتے رہے ہیں۔
حق یہ ہےکہ حق کو پہچانا جائے،دین کے نام پر دین فروشی نہ کی جائے،گرچہ قلم فروشی تو عام ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں شاہ جی اپنا سفر تمام کر گئے تھے۔ان کی حریت پسند انقلابی اور سیاسی زندگی انہی کی زبانی۔
خلاصہ بیان کرگئے
“لگاتار چوالیس برس لوگوں کو قرآن سنایا۔پہاڑوں کو سناتا تو عجب نہ تھا کہ ان کی سنگینی کے دل چھوٹ جاتے۔غاروں سے ہمکلام ہوتا تو جھوم اٹھتے۔چٹانوں کو جھنجھوڑتا تو چلنے لگتیں۔سمندروں سے مخاطب ہوتا تو ہمیشہ کے لیے طوفان بکنار ہو جاتے۔درختوں کو پکارتا تو وہ دوڑنے لگتے۔کنکریوں سے کہتا تو وہ لبیک کہہ اٹھتیں۔صر صر سے گویا ہوتا تو وہ صبا ہو جاتی۔دھرتی کو سناتا تو اس کے سینے میں بڑے بڑے شگاف پڑ جاتے۔جنگل لہرانے لگتے،صحرا سر سبز ہو جاتے۔
افسوس میں نے اُن لوگوں میں معروفات کا بیج بویا،جن کی زمینیں ہمیشہ کے لیے بنجر ہو چکی تھیں۔۔جن کے ضمیر قتل ہو چکےتھے۔
جن کے ہاں دل و دماغ کا قحط تھا۔جن کی پستیاں انتہائی خطرناک تھیں۔جو برف کی طرح ٹھنڈے تھے ،جن میں ٹھہرنا المناک اور جن سے گزر جانا طرب ناک تھا۔جن کے سب سے بڑے معبود کا نام طاقت تھا،جو صرف طاقت کی پوجا کرتے تھے۔تیرہ سو برس کی تاریخ انہی حادثوں کی کہانی ہے۔۔
انہی چھچھورے،نا سمجھ،نازک اور متحرک جانوروں کو دیکھ کر زرتشت نے کہا تھا،’کہ اس کا آنسوؤں اور گیتوں کی طرف میلان ہوتا ہے۔یہاں امراء دوزخ کے کتے اور سیاست دان کھٹی قےہیں۔اِن کے ساتھ نٹ اور ان کے پیچھے لاشیں چلتی ہیں۔اِن کی واحد خوبی یہ ہے کہ ہر نیکی اور ہر برائی کی زبان میں جھوٹ بول لیتے ہیں۔’
خدارا۔۔سرزمینِ پاکستان کے غالب اور روایتی سیاست دانوں کے مکر وفریب کو جان جایئے اور ان کی لوٹ مار اور قوم فروشی سے تعمیر کئے گئے عارضی اور مصنوعی جگمگا تے محلات کے اُس پار بدلتی دنیا کو دیکھیے۔دنیا کب کی روشن ستاروں تک پہنچ چکی۔
آپ بھی روشن راہوں کے راہی بن جائیے۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق صحافی اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔