انٹرویو کرن رباب خان، تحریر: ثناء آغا خان

محنت لگن اور کامیابی کا سنجوک بہت پرانا ہے مگر ان سب کی اہمیت ہر انسان کی زندگی میں مختلف ہوتی ہے. کچھ لوگوں کے لئے کامیابی حاصل کرنا اس لیے آسان ہوتی ہے کہ ان کے آباء و اجداد نے کسی مخصوص میدان میں ان کے لیے راہیں ہموار کر رکھی ہوتی ہے۔مگر کچھ لوگوں کے لئے کامیابی اپنی راہوں کے چناؤ سے شروع ہونے والی محنت سے آخری سانس تک ہمت اور لگن کا نام ہے۔
کرن رباب خان بھی ان چند محنتی خواتین میں سے ایک ہیں جن کے مطابق محنت اور لگن سچی ہو تو کامیابی آپ کے قدموں کی دھول بن جاتی ہے ۔جو لوگ کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں وہ زندگی میں بڑے مواقع کا انتظار نہیں کرتے بلکہ چھوٹے چھوٹے مواقع کو استعمال کرکے کامیابی کی راہیں خود پر احسان کرتے ہیں ۔
پنجاب یوتھ فیسٹیول سے والنٹیر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی اس یونیورسٹی کی طالب علم کرن رباب خان آج اپنی کامیابی کا سہرا اپنی ماں کے سر رکھتی ہیں۔ سوشل ایکٹیویٹیز کا جنون کی حد تک شوق کی وجہ سے آج جنرل سیکرٹری سپورٹس اینڈ کلچر ونگ ڈائریکٹر قصور ہیں ۔
کچھ کر دکھانے اور خود کو منوانے کا جنون کرن کو میڈیا کی طرف کھینچ لایا جبکہ ان کی فیملی میں کسی کا بھی تعلق میڈیا سے نہیں تھا ۔اپنے تمام تر انٹرویو میں بار بار اپنی ماں کا ذکر کرکے کرن رباب نے اپنی تمام تر کامیابیوں کا سہرا اپنی ماں کے سر رکھا ۔ اپنی آنکھوں میں بہت سے خواب سجائے یونیورسٹی کے آخری دن جب کرن کو پہلی بار ان کے پروفیسر صاحب نے دیکھو ٹی وی میں پہلا مارننگ شو کرنے کا کہا وہاں سے ان کا میڈیا کریئر کا آغاز ہوا اس کے بعد دن ٹی وی سے رپورٹنگ کا سلسلہ شروع کیا جو کہ کچھ عرصے بعد ہی پرائم رپورٹنگ شروع کردی۔
اس وقت ٹیلی ویژن پر پہلی کرائم رپورٹر دن ٹی وی سے ہونے کا اعزاز بھی کرن خان کو جاتا ہے جو کہ بالکل بھی آسان نہ تھا بہت کچھ سہنا پڑا بہت کچھ سننا پڑا ۔اس ٹائم اتنا آسان نہیں تھا مرد حضرات کو یہ منوانا کے عورت بھی کرائم رپورٹر سکتی ہے ۔بہت سی مشکلات برداشت کرتے ہوئے اپنے آپ کو منوانا جس میں سب سے بڑا مسئلہ جو انہیں پیش آیا وہ حجاب کی وجہ سے تھا ۔کیونکہ آپ کا تعلق میڈیا سے تھا اس لئے بار بار آپ کو یہ کہا جاتا تھا کہ حجاب نہ کیا جائے مگر کرن نے ان سب باتوں کو پس پشت لا کر حجاب پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا ۔مختلف چینلز کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے ہنر کو مزید نکھارنے کے لئے مختلف workshops کا حصہ بنی۔ تصویری کہانی ہو یا امن کہانی سے ملا ہوا ٹائٹل کرونا ٹائیگر covid-19 میں جس طرح کرن رباب اور ان کے ساتھیوں نے مل کر تین ہزار سے زیادہ گھروں کو روشن مہیا کیا یہ ایک عورت کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔اس کے علاوہ یہاں پر ان کا بنایا ہوا ایک گروپ لیڈیز کے نام سے ہے کا ذکر ضرور کروں گی اس گروپ میں پاکستان بھر کی تمام جرنلسٹ اینکرز اور میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ۔کرن خان اور آمنہ عثمان کا بھی اس گروپ میں اہم کردار ہے جو سب کو ایک جگہ اکٹھے کیے ہوئے ہیں ۔اس گروپ کی بدولت آج تک بہت سے ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا ہے جو کہ بہت کارآمد رہی ہیں ۔
کامیاب انسان بظاہر جتنا متعین نظر آرہا ہوتا ہے اندر سے کامیابی کو مستقل بنانے کے لیے اتنا ہی فکر مند بھی ہوتا ہے ۔اپنے انٹرویو کے دوران کرن رباب اپنی ہر کامیابی کو حتمی نہ سمجھتے ہوئے ہمیشہ پہلی سیڑھی پر نظر جماتی نظر آئیں ۔ہماری انڈسٹری میں کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں بہت سے لوگ ہیں جو صرف اسی در پے بیٹھے ہیں کہ کب کسی کی ٹانگ کھینچیں جائے ۔کب کسی کی سیڑھی کی جائے ۔اور خاص طور پر اگر کامیابی کسی عورت کی ہو تو اس کے پیچھے مردوں سے دو ہاتھ زیادہ محنت ہوتی ہے ۔کامیابی تو دور کی بات یہاں جگہ بنانا بھی آسان نہیں ۔مگر کرن رباب خان نے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ہمت اور عزم کی نئی مثال قائم کر کے دکھا دیا کہ مشکلات پختہ ارادوں کے سامنے کچھ نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں