کامیابی کا سفر، تحریر: ثناء آغا خان

یہ ایک حقیقت ہے کہ لکھتا وہی ہے جو بھر جاتا ہے یہ بات الگ ہے کہ کون کس کو سننا اور پڑھنا چاہتا ہے ۔اس دور میں جہاں اچھا لکھنے والے کی کمی ہے وہاں پڑھنے والوں کی بھی بے حد کمی ہیں
۔کاوش انسان کے اندر کے اطراف کا نام ہے ملتا ا سے ہے سب جو جستجو میں رہتا ہے۔
آل پاکستان ویلفیئر رائٹرز ایسوسی ایشن ایک ایسی تدریسی اور ادبی تنظیم ہے جو نئے آنے والے لکھاریوں کو اپنے نکھار میں اضافہ کرنے کے کا بھرپور موقع دیتی ہے ۔اس تنظیم کے ساتھ میرا یہ پہلا ایونٹ تھا ۔اور میری زندگی کا یہ پہلا ایونٹ تھا جس میں اپوا سے منسلک ہر شخص اس ایونٹ کا آرگنائزر تھا۔Apwwa بس ایک تنظیم نہیں یہ ایک خاندان کا نام ہے جس میں ہر انسان کو اس ایونٹ کے لئے ایسے فکرمند دیکھا جیسے ان کے گھر کا کوئی فنکشن ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب خاندان کے بڑے سب کو برابری کے حقوق پر رکھیں جو کہ ایسی تنظیموں میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔
میں اس کا سہرا Apwwa کے سرپرست اعلی زبیر انصاری صاحب ‘صدر ایم علی اور فاطمہ شیروانی کو دیتی ہوں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہر کسی خواہشات اور ضروریات کو ترجیحات پر رکھتے ہیں ورنہ اتنے سارے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھے جوڑے رکھنا بھی بہت بڑی بات ہے ۔
اس ایونٹ کا باقاعدہ آغاز اللہ کے پاک نام سے ہوا جس کی برکات سے شکر الحمدللہ بخیروعافیت اختتام ہوا ۔
یہاں میں تمام مہمانوں کی تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت کے کچھ لمحات ہمارے ساتھ گزارے اور ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا جن میں
محترم جناب خلیل الرحمٰن قمر صاحب
معروف موٹیویشنل ٹرینر محترم جناب اختر عباس صاحب
محترم جناب اسد اللہ خان صاحب
محترم جناب ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب
(اخوت فاؤنڈیشن)
محترم جناب نوید چوہدری (سٹی 42)
محترم جناب سر ندیم نظر صاحب
محترم جناب گل نوخیز اختر صاحب شامل تھے۔ ورکشاپ کا مقصد ادب کو فروغ دینا تھا ورکشاپ میں پاکستان بھر سے بہترین ادب و فکر میدان میں خدمات سرانجام دینے والے لکھاریوں کی شرکت اور اظہار رائے یقینا تمام شرکاء کے لیے نہایت اہم اور معلوماتی تھی۔ تربیتی ورکشاپ کا مقصد نئے آنے والے لکھاری کی تربیت اور حوصلہ افزائ کرنا تھا تاکہ پاکستان کے اندر ادب کو زیادہ سے زیادہ فروغ مل سکے مایہ ناز لکھاریوں نے ادب کی تربیتی ورکشاپ میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ادبی اور صحافتی میدان میں خود کو منوایا جاسکتا ہے۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے جناب خلیل الرحمن کا کہنا تھا کہ ۔۔۔کوئ کسی سے کیسے لکھوا جاسکتا ہی۔۔۔ لکھنے والا پیدائشی تخلیق کار ہوتا ہے یا لکھاری نہیں ہوتا درمیان کا راستہ استعمال کرنے والا لکھاری یا شاعر نہیں بن سکتا۔۔۔
جبکہ دوسری جانب گل نوخیز اختر صاحب نے اپنے مزاحیہ انداز سے اپنی ذات سے جڑے ہوئے ایک قصہ پر روشنی ڈالتے ہوے بتایا انہیں کوئ شخص لڑکی سمجھ کر خط لکھتا رہا جسے سن کر حاضرین محفل بہت محظوظ ہوۓ۔
محترم آغر ندیم صاحب نے اپنی زندگی کے نشیب وفراز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ محنت کاُصلہ آپ کو ایک دن ضرور ملتا ہے زندگی میں جو بھی مشکلات آجائیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے تو منزل مل ہی جاتی ہے ۔زندگی میں کچھ کرنا ہے تو پھر لوگوں کی پرواہ نہ کریں کیوں کہ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب یہی آپ کے پیچھے ہوتے ہیں ۔
محترم شاہد نزیر صاحب ۔۔۔نے صحافت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں بہت ساری ایسی باتیں ہیں جن کا درست ہونا بہت ضروری ہے میڈیا کے اندر حلال اور حرام میں فرق کرنا بہت ضروری ہے جس طرح باقی ملکوں میں میڈیاکو حلال کیا جارہا ہے ہمارے اسلامی ملک پاکستان میں کیوں نہیں ایسا سوچا جاتا۔ نئے طالب علم جو صحافت میں قدم رکھنا چاہتے ہیں سے کہا کہ وہ ایک اچھی صحافت کو فروغ دیں۔اس تربیتی ورکشاپ میں کچھ سرپرائز گفٹ بھی تھے جن کے لئے قرعہ اندازی کی گئی ورکشاپ کے اختتام پر ایک بہت بڑا سرپرائز عمرہ کا ٹکٹ تھا۔ جس کی مستحق بے شک وہی تھی جس کا بلاوا تھا ساجدہ چوہدری کے عمرہ کا ٹکٹ ملنے پر پورا ہال ایسے خوشی سے جھوم گیا جیسے سب کے ٹکٹ کل آئے ہیں سارا ہال مسرتوں اور مبارکباد کی آوازوں سے گونج اٹھا اور اسی طرح ایونٹ کے شروع سے لے کر اختتام تک ہم سب نے مسرت سمیٹی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں