مغرب سے اٹھی کُہر آلود لہر نے اہل مغرب کو تو دُھند آلود کیا ہی،قلوبِ مشرق کو بھی سردیِٔ افکار دے گئی۔ہمارا اثاثہ گرمیِٔ قلوب افکارِ مغرب کے زیرِ اثر اپنی حِدّت بھی کم کرتا چلا گیا۔خود ان کی روحیں تو برف پوش ہوئی ہی تھیں،ہمارا شعلہء عشق بھی سیاہ پوش ہوتا چلا گیا۔نئے نئے فلسفے،کبھی معاشیات تو کبھی سیاسیات،کبھی جاگیرداری اور سرمایہ داری کے نام پر بحث ومباحثہ۔
کبھی اشتراکیت و اشتمالیت،تو کبھی فسطائیت کا چیستاں۔آج یہ ازم کل وہ اِزم۔۔۔جاہلیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ہبوطِ آدم میں روح کیا پھونکی گئی کہ مقابل بھی سامنے آگیا۔پیدائشِ انساں سے ہی نوعِ انسانی دو گروہوں میں منقسم چلی آرہی ہے۔ایک وہ جو وجودِ خدا پر یقین رکھتے ہیں،دوسرے وہ جو خدائی تصوّر کو انسانی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔پہلا گروہ تو مشاہدات قدرت سے ہی قائل ہوگیا کہ یہ نظمِ اجتماعی،یہ بدلتی ہوئی رُتیں،یہ نظارہء صبح و شام و طلوع وغروب۔بحروبر یہ ان گنت نباتات و حیوانات یہ پری چہرہ لوگ،ان کا کوئی تو خالق ہے۔اور دوسرا گروہ ایسا بھی چلتا آرہا ہے جو انبیاء کرام ومرسلین کی واضح ہدایات کے باوجود ایمان نہیں لاتا۔ان کے افراد تمام عمر لایعنی سوالات کے جوابات ڈھونڈتے گزار دیتے ہیں۔جبکہ انسانی کہانی زبانِ حال سے خود اپنا آغاز اور انجام بھی بتا رہی ہوتی ہے۔لیکن یہ لوگ جہانِ راہگزر سے چوپایوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔لفظ جاہلیت سے عموماً لوگ عرب جاہلیت مراد لیتے ہیں۔حالانکہ واقعہ یہ نہیں،جاہلیت انسانی تاریخ کے کسی خاص دور یا کسی معاشرے کے نمایاں خط و خال کا نام نہیں،یہ علوم و فنون کے مقابل کوئی شئے نہیں بلکہ خدائی احکامات سے انکار اور بغاوت کا نام ہے۔عرب اس لیے جاہل نہ تھے کہ وہ علوم دنیاوی پر دسترس نہ رکھتے تھے،بالکل ایسے ہی جیسے ان سے پہلے قدیم یونان اور روما کی متمدن قومیں اپنے وقت کے رائج علوم سے دانش کشید کرتی رہی تھیں،لیکن ان کی ساری تگ و دو نامِ خدا سے عاری تھی۔یونانی کل علوم کو ایک لفظ میں سمیٹیں تو تمام علمی مساعی لفظِ ‘عقل ‘ کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔اس طرح اہلِ روما نے پیدائشِ انسانی کو محض حسّی اور جنسی لذتوں کے حصول کا ذریعہ جانا۔تاریخ کے اس سفر میں انبیاء کرام بھی اپنا فریضہ حق ادا کرتے رہے کہتے ہیں صرف ستر ہزار سے زائد نبی بنی اسرائیل میں تشریف لائے،لیکن اس قوم نے نہ خود ہدایت پائی نہ دوسروں کو آنے دی۔وجہ صرف احساسِ تفاخر، برتری اور دولت کا حصول۔بخت نصر کی یہودیوں کے قتلِ عام کے بعد دوسری جنگ عظیم کے دوران تقریباً ساٹھ لاکھ سے زائد یہودیوں کی اموات نسل کشی ہی تھی۔اس کے بعد ہی انہوں نے سوچا اگر دنیا میں باقی رہنا ہے تو اس کی معیشت پر قبضہ کر لو۔آج ہم دیکھتے ہیں یہودی معیشت کتنی مضبوط اور مستحکم ہے۔اس کے پنجے کہاں کہاں نہیں گڑھے ہوئے؟ماس میڈیا،جدید ٹیکنالوجی، بدنی،حسی اور جنسی لوازمات سے متعلق تمام اشیائے ضروریہ سب ان کے کنٹرول میں ہیں۔
عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری ان کی خوئے سود خوری نہ گئی۔اور تو اور یورپ کی نشاتہ ثانیہ کو بھی انہوں نے یرغمال بنا کر لا دینیت کی راہ پر ڈال دیا۔
تالمود کہتی ہے”غیر یہودی گدھوں کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم ان پر سواری کرے”
یہودیوں کی خفیہ تعلیم کہتی ہے
“غیر یہودیوں کی غفلت کے منتظر رہو اور جونہی ان گدھوں کو غافل دیکھو فوراً دبوچ لو”
پرانے یہودی پروٹوکول میں ہے۔
” ڈارون اگر چہ یہودی نہیں لیکن ہمیں اس کی آراء کی اشاعت کر کے مذہب کا بھرم کس طرح ختم کرنا ہے،ہمیں معلوم ہے۔
ہم نے ڈارون،مارکس،نطشے کی کامیابی کا پروگرام بنا لیا ہے۔ھم اس کا ابلاغ کریں گے۔اس سے جو غیر یہودی فکر میں گراوٹ ہو گی وہ ہم بخوبی جانتے ہیں”
کیونکہ مذھب ہی آپ کو دائرہ اخلاق کا پابند بناتا ہے۔
ہمارے سامنے کی بات ہے کیسے انسانی گروہ ان کے پیچھے چل پڑے،کبھی سیکولرزم کے نام پر تو کبھی لبرلزم اور ماڈرنزم کے نام پر۔
اخلاقی گراوٹ کا لازمی نتیجہ خدا سے دوری ہوتا ہے۔
مسند الفردوس کی حدیث ہے۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا
“قیامت سے پہلے لوگ خدا کی ہستی پر بھی بحث کریں گے”
جدید ترین دور اور خالق سے دُور؟
دنیا کے شب و روز یونہی گزرتے رہے کہ ریگستانِ عرب سے وہ نور پھوٹا جو تمام انسانی نفسی علوم کی گتھیاں سلجھا گیا،،وحیِٔ الٰہی،،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے تمام عالم پر حُجّت ٹہری۔
قرآن مجید سورۃ بلد”ہم نے انسان کو دونوں ہی راستے بتا دئیے”
سورۃ انسان۔”ہم نے انسان کو راستہ دکھلا دیا،یا تو وہ شکر گزار بن جائے یا کافر ہو جائے”
لیکن صاحبِ ایمان لوگ جانتے ہیں۔بقول اکبر الہ آبادی۔
“صدیوں فلاسفی کی چناں اور چنیں رہی
لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی”
آج کیا ہو رہا ہے؟
بالترتیب سنۂ اڑتالیس،چھپن،سڑسٹھ،
تہتر اور اکیاسی میں یہودی عربوں سے ٹکرائے،آج پھر بغلگیر ہو رہے ہیں۔بخاری میں تو حدیث رقم ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
“قیامت سے پہلے یہود سے لازماً تمہاری جنگ ہوگی”
آج عرب کی فضاؤں سے کونسا نیا اسلام عجم کا رُخ کئے ہوئے ہے؟
اور ہمارے بعض سیاسی اور صحافتی،اپنے تئیں ‘بزعم خود’ علم و دانش کے اکلوتے سر چشمے اس اتحاد کے داعی اور حامی ہیں۔
حیرانی کی بات نہیں۔وجہ وہی حصول دنیا اور فلسفۂ جدید۔
فرعونیت،شدادیّت اور قارونیّت تو محض استعارے ہیں۔
ان کے دلدادہ آج سے زیادہ کسی دور میں نہیں پائے گئے۔
حاصل کلام نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلے الفاظ۔۔مسلم کی حدیث۔
سفیان بن عبداللہ ثقفی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بتائیے کہ کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔
ارشاد ہوا۔۔۔۔۔۔۔
“کہو میں اللہ پر ایمان لایا ہوں اور پھر اس پر جم جاؤ”
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق صحافی اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔
Load/Hide Comments