انسان کو جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ان میں ایک سکون و چین ہے۔ انسان کی خوشبختی اس میں مضمر ہے کہ ذہنی تلاطم اور اضطراب سے محفوظ و مطمئن رہے۔ انسان کو یہ نعمت کنبے اور خاندان سے ملتی ہے، عورت کو بھی اور مرد کو بھی۔
یہ آیہ کریمہ مرد و زن کے سلسلے میں بنیادی طور پر خاندان کے تناظر میں کہتی ہے کہ ” و من آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا” یعنی قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم انسانوں کے لئے، خود تمہاری جنس سے، تمہارا جوڑا پیدا کیا ہے۔ تم مردوں کے لئے عورتوں کو اور تم عورتوں کے لئے مردوں کو۔ تم خود “من انفسکم” ایک دوسرے سے ہو، الگ الگ جنس سے نہیں ہو۔ الگ الگ درجے کے نہیں ہو۔ سب کی حقیقت و ماہیت ایک ہے۔ سب ایک ہی حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب کا جوہر اور سب کی حقیقت ایک ہے۔ البتہ بعض خصوصیات کے لحاظ سے کچھ فرق ضرور ہے چنانچہ ان کے فرائض بھی الگ الگ ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ” لتسکنوا الیھا” یعنی انسانوں میں دو صنفیں ایک عظیم ہدف کے لئے قرار دی گئی ہیں۔ وہ ہدف ہے سکون و طمانیت۔ عورتیں (اور مرد) گھر کے اندر اپنی اپنی مخالف صنف کے ساتھ، مرد عورت کے ساتھ اور عورت مرد کی معیت میں طمانیت حاصل کرے۔ گھر میں داخل ہونے پر داخلی فضا پر محیط سکون و چین، مہربان، محبتی اور امانتدار عورت پر نظر پڑنا مرد کے لئے باعث سکون و طمانیت ہوتا ہے۔ عورت کے لئے بھی ایسے مرد اور ایسے سہارے کا وجود، جو اس سے محبت کرے اور اس کے لئے کسی مستحکم قلعے کی مانند ہو، خوشبختی کی علامت اور اس کے لئے باعث سکون و اطمینان اور موجب خوشـبختی و سعادت ہے۔ خاندان دونوں کو یہ نعمت عطا کرتا ہے۔ مرد کو قلبی سکون کے لئے گھر کی فضا میں بیوی کی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کو سکون و چین کے لئے گھر میں مرد کی احتیاج ہوتی ہے۔ “لتسکنوا الیھا” دونوں کو سکون و چین کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو اس کی شان و شوکت حاصل ہونا چاہئے، عورت ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بہت ہی بری چیز ہے۔ خواہ وہ زیادتی ہو جو عورت پر کی جاتی ہے اور اسے زیادتی کہا بھی جاتا ہے اور خواہ وہ زیادتی ہو کھ جسے سرے سے زیادتی سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ فی الواقع وہ ظلم ہے، زیادتی ہے۔ مثلا یہی بننا سنورنا، واہیات میک اپ اور اسے استعمال کی چیز بنا دینا۔ یہ عورت پر بہت بڑا ظلم اور سراسر زیادتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عورت کے حق میں سب سے بڑی نا انصافی ہے کیونکہ یہ چیز اسے ارتقاء اور کمال کے تمام اہداف اور امنگوں سے غافل اور منحرف کرکے انتہائی بے وقعت اور گھٹیا چیزوں میں مشغول کر دیتی ہے۔
عورت کی نفسیات عورت کی طرح بہت نازک ہوتی ہے۔ عورت کی نفسیات کے حوالے سے ’’اوشو‘‘ اپنی کتاب عورت میں لکھتا ہے۔ نفسیات کا ماہر ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو تم سے ایسے سوال انتہائی مہنگے داموں پوچھتا ہے جو تمہاری بیوی تم سے مفت میں پوچھتی ہے۔ تم محبت ، نزاکت اور جذبے کے حوالے سے گفتگو کرسکتے ہو تاہم حقیقی مسرت یہ جان کر ہوتی ہے کہ تم نے اپنی چابیاں کہیں گم نہیں کی ہیں۔ عورت مرد کی پیشرفتوں کی مزاحمت کرنے سے شروع ہے اور اس کا انت اس کی پسپائی کو روک کر ہوتا ہے۔ اگر تم کسی عورت کی سوچ بدلنا چاہتے ہو تو اس سے متفق ہو جاؤ۔ اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ عورت حقیقت میں کہنا کیا چاہتی ہے تو اس کی بات نہیں سنو بلکہ اس کی طرف دیکھو۔ عورت پوری توجہ چاہتی ہے۔ اس کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ شوہر اس کی طرف متوجہ ہو۔ اس کی بات غور سے سنے اور اس کی تعریف کرے۔ اپنی بیوی کو کہتے رہو کہ تم حسین ہو۔ تم نے جو سوٹ پہنا ہے یہ بہت اچھا ہے۔ تمھارے ہاتھ کا کھانا بہت مزیدار ہے۔ عورت توجہ کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی۔
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ
’’عورت ایک مسئلہ ہے‘‘
اس حقیقت کا ادراک صرف شاہ لطیف کو تھا کہ
’’عورت مسئلہ نہیں،عورت محبت ہے!‘‘،مگر وہ محبت نہیں
جو مرد کرتا ہے!
عورت کے لیے محبت جذبہ ہے، روح کی آزادی ہے
مرد کی محبت مقابلہ ہے۔عورت کی محبت عاجزی ہے۔مرد کی محبت ایک پل ہے،عورت کی محبت پوری زندگی ہے،مرد کی محبت ایک افسانہ ہے،عورت کی محبت ایک حقیقت ہے!
سارے شعراء شیکسپئر سے لرکر شیلےاور ہومر سے لے کر ہم تم تک
سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے،
صرف شاہ لطیف کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا:
’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘
شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ،عورت کو محبت چاہیے،
عورت روح کے چمن میں ،
اڑتی ہوئی تتلی ہے، جو پیار کی پیاسی ہے
مرد کے لیے محبت بھوک اور عورت کے لیے پیار
ایک پیاس ہے!
صرف لطیف جانتا تھا
عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے
اشکوں جیسا سمندرجو نمکین بھی ہے
اورحسین بھی ہے!!
جس میں تلاطم ہے، جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں، صرف اور صرف الم
Load/Hide Comments