ایک ہی شخص، تحریر: عمران رشید

“ایک ہی شخص”
ایسا بھی کیا ہو گیا کہ ہر سُو سنّاٹا چھا گیا۔
ہر روز کئی انسان دنیا میں آتے ہیں،اپنا وظیفِٔہ حیات پورا کرتے ہیں اور خاموشی سے اگلے جہان کے مسافر ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے شب و روز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ویسے ہی صبح طلوع ہوتی ہے،شام ڈھلتی ہے اور رات کے اندھیرے چھا جاتے ہیں۔
پر یہ کیا ؟ایک شخص کے اُٹھ جانے سے نہ وہ دن،دن رہے۔نہ وہ راتیں ،راتیں۔
ہر طرف اداسی چھا گئی،ایسے جیسے بہار میں خزاں اُتر آئی ہو۔

“تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے”

میں کبھی بھی مسلکی
آدمی نہیں رہا،غیر مقلد سا ہوں۔صد شکر حق تعالیٰ ! اس نے رجحانِ طبع کے موافق،رشحاتِ فکر عطا کیا۔طبیعت کی بے نیازی بھی عطائے ربّانی ہوتی ہے۔مگر اکثر احباب اسے رنگِ خودی سے بڑھا کر تکبّر تک لے جاتے ہیں،جو معاذاللہ شرک ہے۔بے نیازی کچھ اور ہے،گھمنڈ کچھ اور۔
حیاتِ مستعار میں معدودِ چند لوگوں کا کچھ کچھ اثر قبول کیا،ویسے تمام عمر، زیادہ دیوانگی اور کم فرزانگی میں گزار دی۔
کوئی دو سال قبل جدید ابلاغ عامہ کے ذریعے علامہ خادم حسین رضوی سے آشنائی ہوئی۔
قطع نظر مسلکی اختلافات کے شروع میں ان کی سخن فہمی اور سخن پروری سے متاثر ہوا۔بعد ازاں غمِ روزگار میں غلطاں ہو گیا۔
علامہ صاحب اپنے اللہ اور حضور سے جا ملے۔کینیڈا میں ان کا جنازہ دیکھا تو دل بے اختیار ان کی مغفرت کے لیے دست بہ دعا ہو گیا۔
اس دن کے بعد سے آج تک جب بھی فرصت میسر ہو ان کی تقاریر اور خطبات سن رہا ہوں۔کیسے کیسے نگینے لوگ پیوند خاک ہو گئے۔یہاں کی یخ بستہ ہواؤں میں ان کی تقاریر قلب کو گرما اور روح کو تڑپا جاتی ہیں۔
ایسا عاشق رسول پہلے کبھی نہ دیکھا۔اور بھی مسالک کے بظاہر جئید علماء ہیں۔لیکن بیشتر محض بازارِ سیاست کی رونق میں گم دیکھے۔شعبدہ باز اور مداری گر۔
علامہ خادم میں ایسا کیا خاص تھا،کہ خانہ دل میں ان کی یاد جگہ کر گئی۔
شائد کچھ اور نہیں،طبیعت کا اخلاص تھا،عشقِ نبی تھا اور وہ بھی حقیقی،مجھے تو کہیں تصنع نظر نہیں آیا۔
امت مسلمہ کا وہ حصّہ جو خطہ پاکستان سے متعلق ہے،ان کی خوابیدہ روحوں میں پھر سے عشق رسول کی حرارت پھونک گئے۔
تن تنہا معذور انسان لاکھوں صحت مند اور توانا انسانوں سے بازی لے گیا۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
سے سرشار اورصحابہ اکرام کی سیرت و قوت ایمان،اسلامی تاریخ کے فراموش کردہ مذہبی اکابرین،مسلح سپہ سالاروں اور حاکمین وقت کو از سرِ نو عوامی یاداشت میں محفوظ کرگیا۔
ان کی ساری زندگی عشق نبی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے۔
بارگاہِ رسالت میں گستاخیوں کا جتنا منہ توڑ اور دندان شکن جواب وہ دیتے رہے وہ انہیں کا خاصہ تھا۔ان کے چہرے سے جلال اور محبت رسول جھلکتی تھی۔تقریر سیدھی دل میں نشتر ہو جاتی۔واحد وجہ دل و زبان کی ھم آہنگی تھی۔

ہزار خوف ہوں لیکن زبان ہو دل کی رفیق

یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق۔

ان کا پیمانہ شرف و عزت صرف ایک ہی تھا”فرمانِ رسول”
اسی پیما نے سے انہوں نے ملک عزیز کے سیاست دانوں کو للکارا بھی اور لتاڑا بھی۔
علامہ اقبال کس پائے کے آدمی تھے؟موجودہ دور میں کلام اقبال کی ترویج میں انکے خطیبانہ رنگ کا بڑا عمل دخل تھا،اس میں بھی وہ اپنی نظیر آپ ہو گئے۔
جہاں لاکھوں لوگ ان کے لیے دعا گو ہیں۔وہیی احقر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی مغفرت اور بخشش کا طلبگار ہے۔
قادر مطلق ان کو روزِ حشر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے،جو ان کی زندگی کی تمنّا تھی۔
ان کی ساری جدوجہد کا حاصل اور پیغام۔۔۔

“رخِ مصطفے’ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دوکانِ آئینہ ساز میں”

دلِ شکستہ میں ایک اور حسرت ایک اور دراڑ ڈال گئی کہ زندگی میں ان سے کوئی ایک ملاقات ہی ہو جاتی۔۔۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق صحافی اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں