یہ کیسی ہوا چلی پڑی ہے،جس کا زور کم ہونے میں نہیں آ رہا۔کتنے ہی انسان ماننِد گُل زندگی کی شاخوں سے ٹوٹ کر خاک کے اندر سما گئے۔لیکن اس کی تُندہی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اب یہ پتہ نہیں کہ اس کی شوریدگی میں انسانوں کا عمل دخل ہے یا پھر آفتِ سماوی۔معاملہ کوئی بھی ہو ،ہے تو مشیّتِ ایزدی۔اور آفت بھی عجیب آئی ہے،جس میں انسان،انسانوں سے گریزاں ہو گئے ہیں۔
معانقہ تو دور کی بات،ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں۔کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر چلنے والے لوگ تو دنیا میں شروع سے نایاب رہے ہیں،لیکن دو قدم ساتھ تو چلتے تھے۔اب کے موسم میں ایک دوسرے کا سامنا ہونے پر دور سے ہی کنی کترا کر گزر جاتے ہیں۔فاصلے بڑھانا ضروری جو قرار دے دیا گیا۔حشرات الارض اور وحشی درندوں کے قصّے پرانے ہوئے۔بقول قتیل شفائی۔۔
“مقّید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے”
حیاتِ ارضی پر ہی حشر کا چھوٹا سا نمونہ روبۂِ عمل ہے۔کہتے ہیں روزِ حشر کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا،سب کو اپنی اپنی فکر لاحق ہو گی۔
پوری دنیا میں ایک عجیب سی کشمکش کا سماں ہے،جہاں لوگ معاشی طور پہ ابتری کا شکار ہیں وہیں نفسیاتی عوارض بھی لوگوں کی زندگیوں کا لازمہ بنتے جا رہے ہیں۔یہاں ایسے بے شمار گھرانے ہیں جنہوں نے گزشتہ کئی ماہ سے اپنے گھروں کی دہلیز تک پار نہیں کی،لوگوں سے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔یہ ٹھیک ہے احتیاط لازم ہوتی ہے پر اتنی بھی کیا۔موت سے کوئی مُفر ہے کیا،موت کا تو دن معیّن ہوتا ہے۔
“کُلبہُِ افلاس میں، دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں، شہر میں ،گلشن میں ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آراء قُلزمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں”
ذاتی طور پہ اگر اپنی کہوں تو روز مرہ کے معمولات میں کوئی خاص فرق نہیں آیا،یہاں کی برق رفتار اور مشینی زندگی کا ویسے ہی حصہ بنے ہوئے ہوں جو کرونا کے نزول سے پہلے تھی۔الحمد ِللّلہ تندرست اور وبائی وہم سے مُبرّا۔ہاں وارداتِ قلبی سے دل مضمحل رہتا ہے۔اپنے دل کا کیا ذکر،اس آزمائشی جہان میں کتنے ہی لوگ بھوک اور فاقوں سے عاجز موت کے منہ میں چلے جا رہے تھے،کرونا کے نمودار ہونے کے بعد سے ان کی تعداد دو چند ہوگئی ہے۔
صدیوں سے غریبوں کا استحصال ہوتا آیا ہے،مجبور اور بے کس لوگ اپنی بقاء کی جنگ لڑتے آئے ہیں،لیکن اب تو نانِ جویں کو ترستے کئی طبقات سرے سے ہی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
ایران کا ہزار سالہ قدیم اور عظیم شاعر فردوسی کہتا ہے۔
“آسمان سے جو بھی مصیبت اُترتی ہے،وہ زمین پر آکے پہلے فردوسی کا گھر پوچھتی ہے”
پتہ نہیں نوعِ انسانی کب راحت کے کسی ایک مقام پر پہنچ پائے گی۔غریب ممالک تو ایک طرف رہے،امیر ممالک بھی اس وبا کے آگے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔
دنیا کی چھتیس فیصد آبادی پہلے ہی خطِ غُربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی اب ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے دو ہزار بیس کے اختتام تک یہ اپنے پیچھے اٹھاسی کروڑ سے لیکر ایک ارب پندرہ کروڑ تک نئے غریب چھوڑ جائے گا۔اور اگر کرونا کے وار نہیں رُکتے تو رواں سال یہ تعداد ڈیڑھ ارب انسانوں کو غربت کی دلدل میں دھکیل جائے گی۔
یہاں کینیڈا میں بھی لاکھوں لوگ اپنے معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔مگر یہاں اتنا ضرور ہے جہاں عالمِ اسلام کے رہنما اپنے خزانوں کو تہہ خانوں میں چھپائے بیٹھے ہیں،وہاں انہوں نے اپنی عوام کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔انفرادی سطح پر ریاست لوگوں کی پّرسانِ حال اور ان کی معاشی معاونت میں پیش پیش ہے۔ملک عزیز میں حکومتی زعما ءہوں یا فریقِ مخالف کے سیاست دان ,ان کو سیاسی بکواسیات سے فرصت نہیں،دکھ اس بات کا بھی ہے،جن کا کام منبروں کی رونق بحال رکھنا تھا،وہ بھی نمک کی کان میں نمک بن چکے ہوئے ہیں۔
دیکھتے ہیں کب بہار لوٹتی ہے اور کب شاخوں پہ نئے غُنچے چٹکتے اور خوش رنگ پھول کِھلتے ہیں۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق صحافی اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور ”فکرو خیال” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔