نیا سال پرانا نصاب، تحریر: عمران رشید

دنیا واقعی ایک طُرفہ تماشا ہی ہے۔یہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولتے،رنگ رنگ کے لوگ اپنا اپنا تماشا لگائے ہوئے ہیں۔اس ملک میں تو خیر ویسے ہی ساری دنیا سے مختلف مذاہب،قوموں اور نسلوں کے لوگ آکر آباد ہوئے ہیں۔شائد اس لیے اسے مہاجروں کی جنت کہا جاتا ہے.کینیڈا کا ایک بھرپور ریاستی نظام ہے،جو آپ کو یکساں بنیادی انسانی حقوق اور آگے بڑھنے کے معاشی مواقع فراہم کرتا ہے۔لیکن لوگ یہاں آکر بھی ان کے قابلِ قبول محاسن سے بہریاب نہیں ہوتے۔کل کی ایک نشست کا احوال ہی پڑھ لیں۔کام کے سلسلے میں نیاگرا آبشار گیا ہوا تھا،معاملاتِ ضروری نبٹانے کے بعد ہوٹل کے کمرے میں دو صاحبان سے ملاقات ہو گئی۔ایک یہاں کے صحافی چودھری صاحب ،نون لیگ کے دلدادہ اور ایک مقامی مذہبی شخصیت, ہردل عزیز مولانا۔یہاں یہ بتاتا چلوں مولانا, علماۓ احتجاج کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔گفتگو تبادلہ حال احوال کے بعد سیاسی اور مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔ہم لوگ جہاں بھی ہوں مذھب اور سیاست کو کھینچ تان کے عام سادہ گفتگو میں ضرور گھسیٹ لیتے ہیں۔معیاری،راست گوئی پہ مبنی اور تعمیری کلام سے ہمیں کوئی یارا نہیں ہوتا۔صحافی چودھری نے حسبِ ذوق نون لیگ کے گُن گانے شروع کر دیئے اور پہلے سے جاری موضوع کا رُخ بدل دیا،مولانا بھی ان کے ھمنوا ہوگئے۔میں اکیلا ان کے قابو آگیا۔موصوف صحافی کی وہی پرانی راگنی،”اِن کے دورمیں موٹروے بنی،اورنج ٹرین منصوبے بنے وغیرہ وغیرہ”۔میں نے دست بدستہ عرض کیا، انہوں نے واقعتاً یہ اچھے کام کیے لیکن حضور یہ وزرائے اعظم کے منصب کے شایانِ شان کام نہیں ہوتے۔آپ بھی کینیڈا میں رہتے ہو،یہ تو کسی ایک وزارت کے دائرہ کار میں آنے والے کام گنواتے رہتے ہو آپ۔مولانا بھی ان کے ہم آواز ہوکر سیاست میں مذھب کو لے آئے۔چونکہ پرانی شناسائی ہے،فرمانے لگے ۔مجھ سے کچھ دوستوں نے گلہ کیا ہے کہ آپ ان دو بڑی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ علمائے احتجاج کے خلاف بولتے ہیں،جو کہ اخلاقیات کے دائرے میں میں نہیں آتا۔مغلظات بکنا منافقت ہوتی ہے اور تو اور، یہ بھی کہتے ہیں کہ میں کسی کا مقلّد نہیں۔پہلے پہل تو میں ھمہ تن گوش رہا۔پھر اندر کے اِظطرار نے سر اُبھارا تو طبیعت کے بند کُھل گئے،باغ وبہار ہوگئ۔اب یہ نہیں لکھ سکتا کہ اس باغ و بہار میں پھول کِھلے کہ پنجابی طلاقتِ لسانی کا غلبہ رہا۔کوئی لگی لپٹی بغیر تمام حکایت ان کے گوش گزار کردی۔
لُبّ لباب بیان کر دیتا ہوں۔
ہمارے ملک میں صحافیوں کی ایک خاص کھیپ ہے،جوساری ساری رات جاگ کے مجاہدہ کرتے ہیں کہ آج ہم نے ان پارٹیوں کے حق میں کیا لکھنا ہے،رات کے کسی پہر ان کو کشف ہوتا ہے اور وہ ان کی مدح سرائی میں اوراق کے اوراق سیاہ کر ڈالتے ہیں۔معلوم نہیں وجہ کاسئہ لیسی اور اس میں مضمر حصولِ دنیا ہوتی ہے یا کچھ اور۔حق بات لکھنی اور سنانی ہو تو قلم کی سیاہی خشک اور زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔رہ گئی پیپلز پارٹی تو یہ جماعت تو ویسے ہی مضحکہ خیز داستان بن کے رہ گئ ہے،نصف صدی سے کچھ اوپر تک مسلسل لوگوں سے دروغ گوئی کرتے جا رہے ہیں۔روٹی کپڑے اور مکان کی آڑھ میں انہوں نے عوام کے پاؤں کے نیچے سے کھڑے ہونے کی زمین تک کھینچ لی۔
بندۂِ آزاد ہو نا عطائے ربّانی ہوتی ہے۔ورنہ تو لوگوں کی کئی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ملازمت پیشہ انسان تو ویسے ہی غلام ابنِ غلام کا پر تؤ ہوتا ہے ما سوائے چند ایک کے جو اپنے ضمیر اور خودداری کا سودا نہیں کرتے۔خوشامد کے بغیر کام نہیں چلتا۔انسان دنیا میں بطورِ آزمائش بھیجا گیا ہے۔علائقِ دنیا میں الجھے بغیر زندگی تمام کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔
احقر پہ اللہ تعالیٰ کی خاص کرم نوازی رہی،زیادہ عمر گزر گئی،تھوڑی باقی رہ گئ.طبیعت تُند ہو تو کسبِ مُعاش مشکل ہو جاتا ہے۔اُس ذاتِ حق نے تمام عمر خوشامد کی معصیّت سے بچائے رکھا۔شکر خورے کو خدا شکر ہی دیتا ہے،جو رزق معین ہے وہ مل کے ہی رہتا ہے۔ہاں ظرف اپنا اپنا۔

“یہ تیرا ظرف ہے،عزّت سے لے یا مانگ کے لے

مُہر لگا دی ہے خدا نے دانے دانے پہ”

کئی سال قبل لندن میں قیام تھا،تو وہاں ملک عبدالسلام سلامی اور راجہ اے علی کے ساتھ بسلسلہ روزگار منسلک رہا۔عبدالسلام صاحب سے تو خیر پہلے سے ہی دہائیوں پرانا خاندانی تعلق استوار تھا،ایک تو بڑے بھائی اے آر بابر کے دوست ،اور دوسرا ان کا پورا کنبہ والدِ گرامی قدر بھاءجی رشید کے تلامذہ میں شامل تھا۔ان کے توسط سے جنابِ راجہ صاحب سے آشنائی ہوئی۔
یہ وہی عبدالسلام اور راجہ صاحبان ہیں،جن کے پاس سینیٹر پرویز رشید نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خود ساختہ جلا وطنی کاٹی۔ ہر دو نے وہاں اپنی اپنی بزنس ایمپائرز بنا رکھی ہیں۔
جتنی دیر وہاں رہا باہمی احترام کا رشتہ قائم رہا،گو کہ طبیعت شعلہ بار رہتی تھی۔ وہ رشتہ آج تک اسی محبت اور مَودّت سے قائم ہے۔کبھی تُو تکار کی نوبت نہیں آئی، میں خود عمر رسیدہ ہو گیا،لیکن آج بھی عمران بابو کہہ کر ہی مخاطب کرتے ہیں،یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔
کینیڈا میں آٹھ سال ہوگئے۔
یہاں اظہر دُرّانی مل گئے۔لندن کا ٹوٹا سلسلہ پھر سے بحال ہوگیا۔ان کے ساتھ دن رات کا ربط ہے،قسّامِ ازل نے انہیں ملائمت سے بھرپور اور شیریں زبان عطا کی ہے۔زباں شیریں جہاں گیری کے مصداق ایک اکیلا میں ہی نہیں ان کے چاہنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔خاموش تعلقّ باہمی کے ساتھ ساتھ غمِ روزگار کے معاملات بھی بخوبی انجام پائے جا رہے ہیں۔کبھی مخاصمت کا موقع نہیں آیا۔
کہنے کا مقصد یہ کہ خدائے بزرگ وبرتر نے ہر طرح سے بھرم قائم رکھا،بشری عیوّب کی پردہ پوشی کیے رکھی۔یہ اس کا کرم اور رحم نہیں تو اور کیا ہے۔
تو قبلہ مولانا اور جنابِ صحافی صاحب! میں کیوں لکھوں یا بولوں ان کے حق میں ؟

“کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

نہ ابلۂِ مسجد ہوں ،نہ تہذیب کا فرزند”
میری تو کاتبِ تقدیر نے ان کے ساتھ کوئی دنیاوی غرض یا کوئی مفاد بھی وابستہ نہیں کیا۔کوئی مجبوری بھی نہیں۔
کیا لکھوں مجھے تو
کوئی پلاٹس ،گیس سٹیشنز کی لیزیں ،کوئی الاٹمنٹس،کوئی پرمٹس کوئی ٹھیکے بھی نہیں درکار۔کب چراغِ زندگی سے روشنی ختم ہو جائے کس کو خبر۔
پھر بعد از موت اُس سے ملاقات بھی تو طے ہے۔
عدالتوں میں اپنی حرام کمائیاں حلال ثابت کر دیں تو قلم اور زبان دونوں حاضر ہیں۔
آٹھ سال کی مسلسل محنتِ شاقہ کے بعد بھی، کینیڈا میں رہتے ہوئے بھی ,اک آشیانہ تو بنا نہ سکا ۔مولانا جب کہ آپ تمام شرعی اصول وضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہاں دو گھر لیئے مجھے اسلامی تعلیمات سمجھا رہے ہیں۔جب کہ یہاں گھر بنانا کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں،بس آپ جیسی اسلامی بصیرت ہونی چاہئے۔
اور کیوں کروں ان کی تقلید ۔بارگاہِ الٰہی میں مغفرت کی دعا ہے ہر وقت۔ڈرتا ہوں یہ جنت کے اس حصے میں نہ لے جائیں جہاں پیٹرولیم کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہوں۔مجھے تو اُلجھن ہوتی ہے۔میں تو خوشبو بھی اچھی استعمال کرتا ہوں۔
حُسن چہرے میں ہو،کتاب میں یا پھر کردار میں،دل کو بھاتا ہے۔
رہا مولانا کا ابتدائی اعتراض تو، کوثر نیازی نے اپنی کتاب”جنہیں میں نے دیکھا” میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک حدیث رقم کی ہے۔
مفہوم اس کا ہے کہ “متکبرین سے تکبّر سے پیش آنا تکبّر نہیں تواضع ہے”۔
تو حضرت جی گالی کا جواب بجز گالی کے کچھ نہیں۔مجھے اِس تعلیم سے زیادہ شگف ہے ۔
صحافی کب سے خاموش تھے۔بولے تحریک انصاف کی کارکردگی سے آپ خوش ہیں۔عرض کی خوش کہاں، میرا تو جب بھی پاکستان، گوجرانوالہ جانا ہوتا ہے،جا بہ جا بکھرے گندگی کے ڈھیر اور ان سے اٹھتا تعفّن بلائیں لے کر کوڑا کرکٹ بغلگیر ہونے کو آتا ہے۔یاد رہے ریاستِ مدینہ میں صفائی نصف ایمان ہوا کرتی تھی۔
اور تو اور درختوں کی کمیابی کے باعث ملکِ عزیز تپتے ہوئے صحرا کا منظر پیش کرتا ہے،پتہ نہیں اربوں درخت بنی گالا میں ہی لگا دیئے گئے ہیں شائد۔
یکساں نظامِ تعلیم کا خواب بھی ابھی شرمندہ تعبیر ہونے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔
اور وزیر اعظم صاحب قوم پر ایک احسان کر دیں،تسبیح گھر میں پھیرا کریں۔ اپنی یہ اضافی عبادت اپنی خلوت میں کیا کریں۔تصوف کا درس دیتے آپ کی زبان کی روانی رکنے میں نہیں آتی ،جب کے معلوم ہونا چاہیے،صوفی لوگ عبادتِ مخفی کے قائل تھے۔پہلے ہی عوام علمائے احتجاج کے بیان کردہ اسلام سے کشمکش کا شکار ہیں۔خود اپنے لیے لطیف اور دوسروں کے لیے کثیف اسلام۔
عوام کا بھی کیا ذکر،مدہوش ہے گزشتہ تہتر سال سے۔ان کو اب ہوش کرنی چاہیے۔اپنے نمائیندے منتخب کرتے ہوئے کم از کم ان کا کسب معاش ہی دیکھ لیا کریں تو شاید کچھ منظر نامہ تبدیل ہو جائے۔کوشش تو کرنی پڑے گی۔

“کچھ لوگ خود اپنی کوشش سے طوفان کی زد سے بچ نکلے

کچھ لوگ مگر ملّاحوں کی ہمت کے سہارے ڈوب گئے۔”
یاد رکھئے گا یہ لوگ آپ کو ذلت اور غربت کے گہرے پانیوں میں ڈبو دیں گے۔
نیا سال تو آگیا پر ھمارا سیاسی نصاب وہی پرانا چل رہا ہے۔
نشست طویل ہو گئی اپنے معزز “دانشوروں”سے اجازت لی اور یہ سوچتے ہوئے اپنے مسکن کی طرف چل دیا کہ میں تو ڈیرھ سو کلومیٹر کے سفر کے بعد اپنے ٹھکانے پہنچ جاؤں گا،یہ دو صاحبان سات سمندر پار آنے کے باوجود اپنا کوئی ذہنی ٹھکانہ متعین نہ کر سکے۔۔۔
_______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں