گوادر کرکٹ سٹیڈیم: جس کی تیاری کے لیے گوجرانوالا کی 90 ٹن مٹی منگوائی گئی

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر کے ساحل پدی زر سے ذرا آگے بڑھیں تو یہاں کے طویل قامت پہاڑ کوہ باتیل کے ساتھ ساتھ ماہی گیروں اور کشتی سازوں کی بستیاں دکھائی دیتی ہیں، یہ میرین روڈ ہے جس کے ختم ہوتے ہی پورٹ روڈ شروع ہو جاتی ہے جو آپ کو گوادر کی بندرگاہ کی جانب لے جاتی ہے جسے پاکستان نے چین کے تعاون سے بنایا ہے۔

لیکن بندرگاہ کے سکیورٹی چیک پوائنٹ سے ذرا پہلے دائیں جانب گوادر کا کرکٹ سٹیڈیم ہے۔ کوہ باتیل کے دامن میں بنا گوادر کا یہ کرکٹ سٹیڈیم آپ کو رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ آرٹ کا ایک غیر معمولی نمونہ دکھائی دیتا ہے اور یہی انفرادیت اسے دنیا کے خوبصورت کرکٹ سٹیڈیمز کی فہرست میں شامل کرتی ہے۔

پہاڑ کے دامن میں بنے اس سٹیڈیم میں خوبصورت سبز گھاس کی فیلڈ، پختہ پچ اور شائقین کے بیٹھنے کے لیے مختص جگہ، جبکہ بھورے رنگ کے مرکزی دروازے کے ساتھ سینیٹر محمد اسحاق بلوچ کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ یہ سٹیڈیم انھیں کے نام پر رکھا گیا تھا اور گوادر کے باسی اس کے لیے آج بھی ان کے مشکور ہیں۔

گوادر سٹیڈیم کا یہ مرکزی دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے یہاں مقامی کھلاڑیوں کے علاوہ سیاح بھی آتے اور تصاویر بناتے ہیں۔ مگر اس سٹیڈیم میں کھیلنے کے لیے گوادر میں موجود پاکستانی فوج کے حکام سے تحریری اجازت نامہ لینا ہوتا ہے۔

گوادر کا یہ سٹیڈیم پہلی بار خبروں میں پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان معین خان پھر یونس خان کے دوروں اور گذشتہ برس پاکستان سپر لیگ کی ٹیم پشاور زلمی کے انڈر 19 ٹرائلز کے بعد خبروں میں آیا تھا۔

برطانوی افسر کرکٹ کھیلنے گوادر آتے تھے`

گوادر جیسے دور دراز ساحلی شہر کی عوام میں کرکٹ کا شوق اب سے نہیں بلکہ پاکستان میں شمولیت سے پہلے سے یعنی 1950 کی دہائی سے ہے۔

مجھے گوادر اور کرکٹ کے ساتھ کی کہانی یہاں کے سابق کرکٹر اور مقامی نیو سٹار کرکٹ کلب کے موجودہ صدر اور گوادر کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر حنیف حسین نے سنائی۔

انھوں نے بتایا کہ گوادر میں کرکٹ کا آغاز سلطنتِ عمان کے وقت سے ہی ہو گیا تھا۔ ’یہاں کی اسماعیلی کمیونٹی کرکٹ کھیلتی تھی۔ جیونی تحصیل میں برطانوی افسران ہوتے تھے وہ بھی آتے اور کرکٹ کھیلتے تھے۔‘

ان کے مطابق یہاں کے پہلے کرکٹ کلب کا نام گوادر الیون تھا۔ ’یہ 60 کی دہائی کا آخر تھا۔ پھر 70 کی دہائی میں اسماعلیہ کرکٹ کلب بن گیا۔ پھر 1978 میں آصف الیون نامی کرکٹ کلب بنا جو پہلا بلوچ کلب تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کے بعد متعدد کرکٹ کلب بنتے رہے۔ نیو سٹار کرکٹ کلب 83 میں بنا جس کا میں بھی صدر ہوں۔ اس وقت خطے میں 60 کے لگ بھگ کرکٹ کلبز ہیں، صرف گوادر شہر میں کلبز کی تعداد 20 سے اوپر پہنچ چکی ہے۔‘

جب بندرگاہ بنی اور گوادریوں کا گراؤنڈ چھن گیا

لیکن یہ کرکٹ گراؤنڈ کب بنا اور پھر اسے سٹیڈیم کب بنایا گیا۔ اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’یہ سنہ 1989 کی بات ہے گوادر کے ماہی گیروں کے پاس بندرگاہ نہیں تھی جسے جیٹی کہا جاتا ہے۔ جب جیٹی بننے لگی تو اسی جگہ موجود کرکٹ گراؤنڈ کو ختم کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گوادر میں کرکٹ کا پہلا گراؤنڈ کانجل تھا۔ پھر وہ جیٹی (بندرگاہ) کی زد میں آ گیا اس وقت کے ہمارے خطے کے بڑے اس وقت کے سینیٹر محمد اسحاق بلوچ کے پاس گئے اور انھیں بتایا کہ ہمارا گراؤنڈ جیٹی کی زد میں آ گیا ہے۔ محمد اسحاق بلوچ بہت اچھے لیڈر تھے انھوں نے ڈیڑھ دو لاکھ سے یہ زمین خرید کر کوہ باتیل کی گود میں موجود اس جگہ پر گراؤنڈ کی بنیاد رکھی۔`

حنیف حسین نے بتایا کہ ’پھر گوادر میونسپل کمیٹی کے چیئرمین کہدا محمد نے اس کے لیے ڈیمارکیشن کروائی اور پھر چھوٹا سا پویلین بنوایا گیا۔ سٹیڈیم تیار ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ کابینہ کے سربراہ امام بخش امام نے سب طلبا کو بلوایا اور یوچھا کہ سٹیڈیم کا نام کیا رکھیں تو سب طلبا نے ایک ساتھ کہا کہ اس کا نام سینیٹر محمد اسحاق بلوچ سٹیڈیم رکھا جائے۔ یوں اس کا یہ نام رکھ دیا گیا۔‘

مرحوم امام بخش امام، اس وقت کے صدر، نے تمام کلبوں کے مشاورت سے سینیٹر کے خدمات کے اعتراف میں نام ’سینیٹر محمد اسحاق بلوچ کرکٹ اسٹیڈیم‘ رکھا۔ مشاورت میں سینیئر کرکٹر غنی آصف، کہدہ محمد، رسول بخش، استاد اسحاق’ وغیرہ شامل تھے۔

اسی حوالے سے گوادر میونسیپل کمیٹی کے ایکس چیئرمین عبدالحمید حاجی نے بتایا 1999 میں کرکٹ سٹیڈیم کی چار دیواری اور اسٹپس کی تعمیر ہوئی اور پچ بھی دوبارہ بنائی گئی۔ مگر امام بخش امام ورسول بخش سمیت کمیٹی کے ممبر پچ سے مطمئن نہیں تھے۔ پچ کو اُکھاڑ کر دوبارہ بنایا گیا یہ کام بلدیہ کے چیئرمین کے توسط سے ایم پی اے کے فنڈ سے کروایا گیا۔

حنیف حسین کہتے ہیں کہ ’اس دور میں سیمنٹ کی پچ بنی ہوئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ یہاں میچز کھیلے جاتے رہے، اس عرصے میں سنہ 2013 سے 2014 کے درمیان گوادر کے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی نے 55 لاکھ گرانٹ دی جس سے ایک پویلین، آؤٹ فیلڈ کی مٹی، دو کمرے بشمول انڈر گراؤنڈ ٹینک تعمیر کیے گئے۔ یہ کام محکمہ کمیونکیشن اینڈ ورکس نے کیا۔‘

گوجرانوالا کی 90 ٹن مٹی

حنیف حسین نے بتایا کہ ’سنہ 2017 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہمیں سٹیڈیم میں ہارڈ پچ بنانے کے لیے گوجرانوالہ سے 90 ٹن مٹی منگوا کر دی تھی جس سے سٹیڈیم کی تین پچز بنائی گئیں۔ یہ مٹی تین ٹرکوں میں منگوائی گئی اور ایک ٹرک کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپے تھا۔ اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کیوریٹر زاہد نے تین پچز، باؤنڈری روف اور دیگر لوازمات پاکستان کرکٹ بورڈ کی معاونت فراہم کرتے ہوئے بنوائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت تک گوادر کے اس سٹیڈیم کے پاس کھیلنے کے حقوق یعنی پلئینگ رائٹس نہیں تھے کیونکہ سٹیڈیم کی رجسٹریشن نہیں ہوئی تھی۔ جس کے لیے یہ تمام انتظامات ضروری تھے پھر ایک سال کے کام کے بعد گوادر سٹیڈیم کو 2018 میں پلیئنگ رائٹس مل گئے۔‘

سنہ 2017 میں نواز شریف نے گوادر کا دورہ کیا اور ایک ارب کا ترقیاتی فنڈ دینے کا اعلان کیا۔ اس وقت تو سٹیڈیم کے بارے میں کوئی پلان تیار نہیں تھا تو کچھ ہو نہیں سکا۔ بعدازاں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اس سٹیڈیم کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے گرانٹ کا اعلان کیا۔

ڈی جی جی ڈی اے شاہ زیب کاکڑ اور چیف انجینیئر حاجی سید محمد نے گھاس لگوانے اور دیگر تزئین و آرائش کا کام کیا۔

2017 میں حمید رشید ہنڈا گوادر، حاجی غنی، عبدالروف، در محمد، فیض کدواہی اور شیر جان کے تعاون سے ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن کے دفتر کو باقاعدہ رینویٹ اور اس کی ابتدا ڈی سی گوادر نعیم بازہی، برگیڈیئر اظفر کمال، سابق ناظم بابو گلاب، کریم نواز اور برکت کوسہ نے کی۔

گوادر کرکٹ سٹیڈیم کے بالکل ساتھ پانی کی فلٹریشن کا پلانٹ ہے جسے ممبر چیمبر اینڈ کامرس نوید کلمتی کی درخواست پر صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال نے ٹھیک کروانے کا حکم دیا جس سے گوادر ڈویلمپنٹ اتھارٹی کو اسی پلانٹ سے ملنے والے پانی سے گراؤنڈ کو سر سبز کرنے میں مدد ملی۔

اب یہاں ڈسٹرکٹ کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین زاہد سعید ہیں جن کی نگرانی میں موجود تزئین کا کام کیا گیا ہے۔

ماجد بشام یہاں سنہ 2001 سے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ رابطہ کرنے پر انھوں نے نہایت خوشی سے مجھے بتایا کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان معین خان تین چار برس پہلے یہاں آئے اور جب لوگوں نے انھیں دیکھا تو انھیں گراؤنڈ میں لے آئے، میں نے بھی ان کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور ان کا کیچ بھی پکڑا تھا۔ پھر یونس خان کو بلایا گیا پھر پشاور زلمی والے آئے انھوں نے 19 ٹرائلز کیے اور 16 لڑکوں کو ابتدائی طور پر سلیکٹ بھی کیا۔ لیکن فی الحال اس متعلق کوئی خبر نہیں ہے۔‘

ماجد کہتے ہیں کہ ’ابھی ہم نے فوج سے اجازت لی ہے ابھی ہمارے پریکٹس میچ چل رہے ہیں اگلے مہینے سے گراؤنڈ میں ہمارا باقاعدہ ٹورنامنٹ شروع ہو گا۔‘

کرکٹ کٹ اور کھیل کے دیگر سامان کا انتظام کون کرتا ہے؟

ماجد بشام نے بتایا کہ ’ آپ کو علم ہے کہ کرکٹ ایک مہنگا کھیل ہے، ہم اپنی کٹ کا انتظام خود کرتے ہیں۔ ’گیند ہم تین چار سو کی خریدتے ہیں۔ بیٹ کسی کھلاڑی کے پاس ہوتا ہے یا کوئی کسی امیر آدمی سے کھیلنے کے لیے مانگ لاتا ہے۔‘

یہ کھلاڑی نیٹ پریکٹس کے لیے خشک زمین کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ گھاس کا خیال اور اسے درست حالت میں رکھنا محنت طلب اور خرچے والا کام ہے جس کے لیے انتظامیہ اور فوج مدد فراہم کرتی ہے۔ لیکن وہ پرامید ہیں کہ گوادر میں اور بھی کرکٹ سٹیڈیم بنائے جائیں گے۔

گذشتہ دنوں وہاں قیام کے دوران میں نے سڑک پر گہما گہمی دیکھی تو میرے گائیڈ نے بتایا کہ ’آج یہاں جنرل صاحب بھی آ رہے ہیں اور ڈی سی صاحب بھی کیونکہ آج یہاں کرکٹ میچ ہو رہا ہے۔‘ اس میچ کے علاوہ وہاں کراچی سے ہیوی بائیکز پر شہر میں داخل ہوتی ریلی بھی دکھائی دی یہ سب لوگ کرکٹ سٹیڈیم کی جانب بڑھ گئے۔

گوادر کے 60 کرکٹ کلبز کے کھلاڑیوں میں ماہی گیر، کشتی ساز، کاروبار کرنے والے یعنی ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ یہاں سے ہمیں کوئی قومی کرکٹر تو نہیں ملا لیکن صوبائی سطح پر انھیں کھیلنے کا اعزاز حاصل رہا ہے اور اب خبروں میں آنے کے بعد یہاں کے کھلاڑی پرامید ہیں کہ اب قومی اور بین الاقوامی کھلاڑی اس خوبصورت سٹیڈیم میں آئیں گے اور ان کے ٹینلنٹ کو دیکھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں