سپریم کورٹ میں سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ طریقہ کار سے متعلق قانونی و آئینی رائے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ خفیہ ووٹنگ ہونی چاہیے یا نہیں فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی، اگر آئین کہتا ہے کہ خفیہ ووٹنگ ہو گی تو ہو گی، بات ختم۔
کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے پانچ رکنی کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو سوال ریفرنس میں پوچھے گئے ہیں اس پر ہی جواب دیں گے۔ عدالت نے تعین کرنا ہے کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 لاگو ہوتا ہے یا نہیں؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمان کا متبادل نہیں ہے۔ ریاست کے ہر ادارے نے اپنا کام حدود میں رہ کر کرنا ہے، پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قانون میں کبھی خلا نہیں آتا، کوئی قانون ختم ہو تو اس سے پہلے والا بحال ہو جاتا ہے، کل انفرادی طور پر کیس میں فریق لوگوں کو کل سنیں گے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر سارے انتحابات سیکریٹ ہیں تو مخصوص نشستوں پر کیوں نہیں ہوتے؟ آپ نہیں کہہ سکتے کہ تمام الیکشن ایک ہی طریقے سے ہوں گے۔سیکریٹ اور اوپن دونوں کے لیے مثبت اور منفی رائے موجود ہے۔
عدالت میں دلائل دیتے ہوئے سینیٹ الیکشن سیاسی معاملہ ہے اور یہ ریاضی کا سوال نہیں ہے۔ سیاسی معاملات میں سمجھوتے ہوتے رہتے ہیں۔ صدارتی آرڈینس کے خلاف کسی ایوان میں اگر قرارداد منظور ہوئی تو وہ ختم ہو جائے گا۔
رضا ربانی نے کاہ کہ پارلیمان نے توثیق نہ کی تو صدارتی آرڈیننس 120 دن بعد ختم ہو جائے گا۔ عارضی قانون سازی کے ذریعے سینیٹ الیکشن نہیں ہو سکتا۔
اس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس کا سوال عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ آرڈیننس جاری ہونے پر کوئی رائے نہیں دیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہر روز مختلف بلوں پر ووٹنگ ہوتی ہے۔ کبھی اپوزیشن حکومت کو اور کبھی حکومت اپوزیشن کو ووٹ دیتی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت کے انتخاب کا مکمل طریقہ کار موجود ہے۔ سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں، قانون کے تحت نہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بھارت میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ اگر پارلیمنٹ سینیٹ الیکشن میں ترمیم کرے تو کیا اوپن بیلٹ ہو سکتے ہیں؟
اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ اگر آئین سے متصادم نہ ہو تو ترمیم ہوسکتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کی نمائندگی خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ تاریخ کے تناظر میں 226 کی تشریح ممکن ہے۔
ن لیگ کے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ کی جانب سے غیر ملکی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہاں بین الاقوامی ایشوز پر فیصلہ کرنے کیلئے نہیں بیٹھے ہیں۔
اس پر بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ پاکستان کئی بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہے۔ اس پر عدالت نے پوچھا کیا بین الاقوامی معاہدے سینیٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے کروانے کا کہتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی بین الاقوامی معاہدے کی حامی نہیں۔
بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی تیاری کے دوران خفیہ ووٹنگ پر بحث ہوئی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو تمام زمینی حقائق کا علم ہے۔
وکیل سندھ ہائیکورٹ بار بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں کہا کہ موجودہ حالات میں کوئی آئینی بحران نہیں ہے۔ ماضی میں حکومت نے اپنی سیاسی زمہ داری عدالت پر ڈالنے کی کوشش کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنایا نہ کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کے دوران بابری مسجد کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2019 میں بدنام زمانہ فیصلہ سنایا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دینے سے انکار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کیا کہتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے دلائل میں بتایا کہ قانون کیا ہونا چاہیے۔ پرانی ویڈیو اچانک سامنے آگئی، انتحابی عمل سے کرپشن ختم کرنا پارلیمان کا کام ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسپیکر کے الیکشن کون کرائے گا آئین میں کہیں نہیں لکھا۔ کیا الیکشن ایکٹ 2017 ختم ہونے سے سینیٹ انتخابات نہیں ہونگے؟
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔