ترجیحات کا تعین کر لیں، پارٹی ہوتی رہے گی!

بحثیت قوم ہم عجیب لوگ ہیں، جسے چاہیں راتوں رات اسٹار بنا دیں اور جب چاہا کسی کی عزّت کی دھجیاں اڑا دیں۔ اس حوالے سے ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگ جانے والی بات اگر بری نہ لگے تو بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ ایک ذرا شوشہ چھوڑ کر دیکھیں۔ انتہائی کم وقت میں لاکھوں شیئرز، ہزاروں میمز، سیکڑوں کی تعداد میں ٹرولنگ ہمارے بارے میں‌ بہت کچھ ثابت کر دیں‌ گے۔

سوشل میڈیا کی بدولت جہاں کئی کام آسان ہوئے ہیں اور ہمیں بہت سی سہولیات حاصل ہوئی ہیں، وہیں ایسے پلیٹ فارم پر اکثریت اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ ہے محض وقت گزاری اور تفریح کے لیے کی گئی ان کی کوئی ٹوئیٹ، پوسٹ یا میم کسی دوسرے انسان کی زندگی پر کتنا گہرا اثر چھوڑ سکتی ہے۔ اس کی حالیہ مثال دنانیر مبین نامی نوجوان لڑکی ہے جس نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی سیر کے دوران اپنی اور اپنے ساتھیوں‌ کی موج مستی اور تفریح‌ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تھی۔

اس لڑکی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ وڈیو سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا کر دے گی۔ ہم اوپر بتاچکے ہیں‌ اس قوم کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ اسے کوئی بھی ٹرک کی بتّی کے پیچھے لگا دے اور تماشا دیکھے۔ یہی کچھ اس معاملے میں‌ بھی ہوا۔

پاکستان بھر میں سوشل میڈیا صارفین نے اس تفریح‌ اور موج مستی کی ویڈیو کو اپنے اپنے انداز سے بنا کر اپ لوڈ کرنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کا وہ جملہ ‘پارٹی ہو رہی ہےِ’ زبان زدِ عام ہو گیا۔ عام افراد سے لے کر شوبز کی دنیا کے ستاروں تک، سیاسی شخصیات سے لے کر مشہور کھلاڑیوں تک ہر دوسرے شخص نے اس ویڈیو کو دیکھا اور وائرل کرنے میں اپنا حصّہ بھی ڈالا۔

یہ جملہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنا اور دنانیر مبین کے انسٹا گرام فالورز کی تعداد چند گھنٹوں‌ کے دوران کئی گنا بڑھ گئی۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ٹائم لائن ‘پارٹی ہو رہی ہے’ کہ ہیش ٹیگ سے بھری پڑی ہے۔

اسی دوران شعبۂ تعلیم سے بین الاقوامی سطح پر منعقدہ امتحان کے نتائج کی ایک خبر بھی ہم وطنوں‌ کے لیے باعثِ مسرت ثابت ہوئی جس کے مطابق ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹس (اے سی سی اے) کے فنانشل رپورٹنگ کے امتحان میں زارا نعیم نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ اس امتحان میں 179 ممالک کے طلبا شریک ہوئے تھے جن میں‌ اوّل پوزیشن زارا نعیم کا مقدّر بنی۔

یہ یقینا ایک بڑی خبر اور ہم سب کے لیے فخر و انبساط کا موقع تھا، لیکن زارا نعیم کو دنانیر مبین کی طرح توجّہ اور شہرت نہ مل پائی۔ یہاں ہرگز ان دونوں میں موازنہ نہیں بلکہ بتانا مقصود ہے کہ ہماری ترجیحات یہ ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم پاکستانی تعلیم سے متعلق کس قدر سنجیدہ ہیں اور ہماری اس حوالے سے کیا سوچ ہے۔

ایسا نہیں‌ ہے کہ سنجیدہ اور باشعور لوگوں نے زارا نعیم کے لیے تعریفی کلمات سے اپنی ٹائم لائن آراستہ نہیں‌ کیں، لیکن جس تیزی سے اور دھڑا دھڑ دنانیر مبین کی وڈیو پر میمز بنیں، ہر عمر اور طبقے کے افراد نے ردِّ عمل ظاہر کیا، ویسا ردّ عمل زارا نعیم کی اس شان دار کام یابی پر نہیں‌ آیا۔ افسوس اسی بات کا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر زارا نعیم کی کام یابی خبر بھی نشر ہوئی اور انھیں مبارک باد دیتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات بھی ادا کیے گئے، لیکن ایک بلاگر دنانیر مبین کی ویڈیو اس پر حاوی رہی۔ سچ پوچھیے تو تعلیم کا شعبہ نہ تو کبھی ہمارے حکم رانوں کی ترجیح رہا اور نہ ہی بحثیت قوم ہم نے اسے سنجیدہ لیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں