بس میرے موبائل کو کچھ نہ ہو!

کوروناکی وبا کے دوران کسی کو چھینک بھی آتی تو خوف سامحسوس ہوتا ہے اور دل صحت یابی کی دعا کرنے لگتا ہے ، اسی دوران خالہ کی اسپتال منتقلی کی خبرمل جائے تو فکرمندی تو ہوتی ہی ہے۔

بیاسی سالہ خالہ کو دیکھ کران کی عمررفتہ کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، گفتگومیں ایک ربط اور روانی بے ، زندہ دل ہیں اور خوش اخلاق بھی ۔

زندگی کے رہنے کے سارے ہنر آب و تاب کے ساتھ سانس لے رہے ہیں مگر دل کا روگ لاحق ہے ۔ بس اسی تکلیف میں اسپتال میں داخل ہوئیں اور چند دنوں میں رخصت بھی کردی گئیں ۔ کورونا کی مہلک وبا کے سبب اسپتال جانا مناسب نہیں تھا لہذا عیادت کے لئے ان کے گھر کی راہ لی ۔ خالہ کے اکلوتے صاحبزادے بیرون ملک مقیم ہیں ۔

ان سے بھی ملاقات ہوئی ۔ بیاسی سال کی عمرعزیز میں خالہ نے بیٹے کے ساتھ بمشکل ہی اٹھارہ بیس سال ساتھ گزارے ہو ں گے ۔ کبھی پڑھائی تو کبھی تلاش معاش میں اکلوتا بیٹا ان سے دور ہی رہا ۔ بیٹے کو اپنے قریب دیکھ کر خالہ کی آنکھوں میں ایک مسکراہٹ سکون اور خوشی کی لہریں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں گویا قوس و قزح کے سارے رنگ ہاتھ باندھے احاطہ کرتے ہوں ، بیٹا ماں سے کچھ نہ کچھ کہتا تو سنی ان سنی گفتگو پر ماں صدقے واری جاتیں اور چہرہ اس بات کی گواہی دیتا تھا ۔

خالہ کے چہرے پر ایک ساتھ بنتے بگڑتے تاثرات دیکھ کر مجھے سکون ملا لیکن یہ غم بھی ستانے لگا کہ یہ کیسی دو پل کی خوشی ہے جو ماہ و سال کی جدائی کے خوف میں گھری ہو ۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا اس دوران خالہ کے فون کی گھنٹی بجی فون پرگفتگو مکمل ہوئی تو بیٹے نے کہا کہ امی کو ڈاکٹر نے فون پر بات کرنے سے سختی سے منع کیا ہے ۔ لیکن امی کو بس فون مل جائے ۔

اس جملے پر ماں نے شاکی نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا ۔ لیکن پھر آنکھوں میں ایک ایسی اداسی در آئی جس نے مجھے افسردہ کیا اور میرا دل جیسے کسی نے ٓارے سے چیر دیا ہو ۔ خالہ اپنی دھن میں فون کو سہلاکر سر جھکا کر بولیں ۔ میری اللہ پاک سے ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ بے شک مجھے کچھ ہوجائے مگر میرے موبائل کو کچھ نہ ہو۔۔

یہ جملہ سن کر بیٹے نے باآواز بلند اپنی بات دہرائی اور کہا میں کہہ رہا ہوں نا موبائل کے بغیر ان کا گزارا ممکن نہیں ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود نہیں مانتیں ۔ مجھ پر توجیسے ایک قسم کا سکتہ طاری تھا اس گفتگو میں پھر کسی نے کیا کہا اور کیا جواب دیا یاد نہ رہا ، اور دل خالہ کی دعا کا گردان کرنے لگا ۔۔

بس موبائل کی سلامتی کی دعا ۔ یہ دعا کیا تھی ان کے اندر کا شور تھا جو تنہائی سے پریشان ہوکر غوں غاں کرنے لگا تھا ۔ وہ ایک جملہ نہیں تھا ایک تیر تھا جوگویا میرے دل میں پیوست ہو گیا تھا ۔ یہ بے جان موبائل فون لوگوں کے لئے صرف رابطے اور کسی کے لئے وقت گرازی کا ذریعہ ہے لیکن یہ کسی کو سانسیں ادھار دیتا ہے اسکا اندازہ مجھے پہلی بار ہوا ۔ فون کا استعمال خالہ کی جسمانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے مگر تنہائی کے باعث انکی ذہنی اور روحانی تکلیف کا علاج بھی ہے ۔

اس ایک دعا کے سامنے میری دوڑتی بھاگتی زندگی یک دم رنگوں سے خالی خالی محسوس ہونے لگی جیسے دل بھاری ہو گیا ہو ۔ میری آنکھیں خالہ کے چہرے پر ٹک سی گئی تھیں جو ان کے اندر کی تحریر کھول کھول کے بیان کر رہی تھیں ۔ بھلا ایک بے حس موبائل کی قیمت کیا ہوگی ۔ مگر خالہ کے لئے اس میں پوری دنیا سمٹ آئی ہے ۔ موبائل میں بے بہت سی ہنگم اور بے ترتیب آوازوں کا شور ۔ مگر خالہ کے آگے وہ آوازیں نہیں لوگوں کا عکس ہیں ۔ جو کانوں سے اتر کر دل تک جاتی ہیں ۔ اور تنہا تہنا دل تھوڑی دیر کو اپنے آپ کو ایک ہجوم میں محسوس کرتا ہو ۔ یہ ایک دعا نہیں کہ ان جذبوں کی پکار تھی ۔ وہ سادگی میں کہا گیا ایک جملا تنہائی اور اکیلے پن کی شکایت نہیں ۔ بلکہ وہ آنسو تھے جس کے موتی جیسے شفاف قطرے باہر نہیں دل میں گر کر دل میں ہی جذب ہو جاتے ہیں ۔ ۔

اس ایک دعا کے بعد میرا خود سے یہی مدعا رہا کہ اہل وعیال کے لئے اس قدر دوڑ دھوپ کے بعد صرف جسم کو خوراک مل سکے اور وہ جان ایک موبائل فون سے بھی بے قیمت ہو تو یہ تگ و دو لاحاصل کے سوا کچھ نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں