اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں کھائے جانے والے کھانوں کو یکسر تبدیل کر دیا جائے کیونکہ چاول کا بے تحاشا استعمال خاص طور پر بریانی کی صورت میں ذیابطیس کے مرض کی ایک بڑی وجہ بن گیا ہے۔پاکستان میں دعوتوں میں کھانا اور ہوٹلنگ کرنے کو ایک تفریح سمجھا جانے لگا ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں افراد شوگر کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں، اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان معذوروں کی تعداد کے حوالے سے دنیا کے چند بڑے ممالک میں سے ایک ہوگا۔ان خیالات کا اظہار ماہرین امراض ذیابطیس نے بدھ کے روز مقامی ہوٹل میں “ڈسکورنگ ڈائبیٹیز” نامی پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈسکورنگ ڈائبیٹیز (Discovering Diabetes) نامی پروجیکٹ پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو نے مشترکہ طور پر شروع کیا ہے جس کے تحت ایک ہیلپ لائن کے ذریعے ذیابطیس کے مریضوں کو ان کے مرض کے حوالے سے آگاہی اور معروف ڈاکٹروں سے متعارف کروایا جائے گا۔کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے جناح اسپتال کراچی کی سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر تسنیم احسن، پروفیسر زمان شیخ، پاکستان اینڈوکرائین سوسائٹی کے نو منتخب صدر پروفیسر ابرار احمد، پروفیسر جاوید اقبال، سید جمشید احمد، ہارون قاسم، وسیم بادامی اور ایکٹر عمران عباس نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر فارم ایوو کی جانب سے اینڈرائیڈ فون کے ساتھ منسلک ہوجانے والے شوگر کی پیمائش کرنے والے آلے ایوو چیک کی رونمائی بھی کی گئی جو کہ شوگر چیک کرنے کے ساتھ ساتھ فون میں اس کا ریکارڈ بھی محفوظ کر سکتا ہے۔پروفیسر تسنیم احسن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت جو کچھ بھی کھایا جا رہا ہے وہ سب غلط ہے، بریانی اور کولڈ ڈرنک جو کہ پہلے صرف اور صرف شادیوں کی تقریبات میں پیش کیا جاتا تھا اب روزمرہ کی خوراک کا حصہ بن چکا، پاکستان میں کھانا ایک تفریح کا ذریعہ ہو چکا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں کھانے پینے کی عادات کو یکسر تبدیل کیا جائے اور تفریح کے نئے مواقع اور طریقے فراہم کی جائیں تاکہ قوم کو ذیابطیس اور دیگر بیماریوں سے بچایا جا سکے۔پروفیسر تسنیم احسن کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کی 26 فیصد بالغ آبادی ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہے اور بدقسمتی سے ان میں سے آدھے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈسکورنگ ڈائبٹیز ہیلپ لائن کے ذریعے عوام الناس کو شوگر کے مرض کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں گی اور ڈاکٹر سے رابطہ بھی کروایا جائے گا۔معروف ماہر ذیابطیس پروفیسر زمان شیخ کا کہنا تھا کہ شوگر کا مرض ایک خاموش قاتل ہے جو کہ لوگوں کے گردے، آنکھیں، دل اور دماغ کو خاموشی کے ساتھ تباہ کرتا رہتا ہے، بدقسمتی سے اکثر لوگوں کو اپنی بیماری کا اس وقت علم ہوتا ہے جب ان کے اعضاء کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ذیابطیس کی بیماری ایک میٹھی لیکن خطرناک بیماری ہے جو کہ انسان کو اندرونی طور پر تباہ کر دیتی ہے، عوام الناس سے درخواست ہے کہ وہ ڈسکورنگ ڈائبیٹیز ہیلپ لائن نمبر 0800-66766 پر رابطہ کریں اور اور اپنی صحت کے متعلق معلومات حاصل کرکے کے احتیاطی تدابیر اور علاج شروع کروائیں۔مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ اس پروجیکٹ کو شروع کرنے کا مقصد ایک صحت مند معاشرے کا قیام ہے، پاکستان میں بدقسمتی سے کروڑوں لوگ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی بیماری سے لاعلم ہیں، لوگ ڈسکورنگ ڈائبیٹیز ہیلپ لائن پر کال کرکے اپنی صحت کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ اگر کوئی پاکستانی فرد 40 سال سے زائد عمر کا ہے، جس کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو پہلے سے ہی ڈائبیٹیز کا مرض لاحق ہے اور اس فرد کی قمر 36 انچ سے زائد ہے تو وہ فرد یا تو اس مرض میں مبتلا ہو چکا ہے یا کچھ عرصے بعد مبتلا ہو جائے گا۔ایسے افراد کو فوری طور پر اپنے کھانے پینے کی عادات تبدیل اور ورزش شروع کرنی چاہیے تاکہ وہ اس مرض کو لاحق ہونے میں تاخیر کر سکیں یا اگر یہ مرض لاحق ہوگیا ہے تو وہ اپنی شوگر کنٹرول کر سکیں۔ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا لوگوں کو پہلی فرصت میں ماہر امراض ذیابطیس سے علاج شروع کروانا چاہیے تاکہ ان کے جسم کے اعضاء کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔دیگر ماہرین بشمول پروفیسر جاوید اقبال، پروفیسر ابرار احمد، وسیم بادامی اور ایکٹر عمران عباس کا کہنا تھا کہ اپنی صحت خاص طور پر ذیابطیس کے مرض سے لاعلمی اب ایک بہت بڑا جرم بن چکا ہے، جس کا خمیازہ دل کے دورے، فالج گردوں کے ناکارہ ہونے اور اندھے پن کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
Load/Hide Comments