خان صاحب! سب اچھا نہیں

ایک زرداری پی ڈی ایم پر بہت بھاری ثابت ہوا لیکن عمران خان کی حکومت کو پی ڈی ایم کے اختلافات پر زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے۔ پی ڈی ایم کبھی بھی عمران خان کے لئے کوئی بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن عمران خان نے اپوزیشن کے اس اتحاد کو اپنے سر پر سوار کر لیا۔ پی ڈی ایم کا سب سے زیادہ فائدہ شیخ رشید احمد کو ہوا۔

13؍ دسمبر 2020کو لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے صرف ایک دن قبل گھبرائے گھبرائے سے عمران خان نے شیخ رشید احمد کو وزیر داخلہ بنا دیا۔ کچھ دن گزرے اور خان صاحب پنجاب کے سب سے بڑے ’’سیاستدان‘‘ چوہدری پرویز الٰہی کے گھر میں بیٹھے نظر آئے جنہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں ایسا چکر چلایا کہ حکومت اور اپوزیشن کے تمام امیدوار بلا مقابلہ سینیٹر بن گئے۔

ان میں مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا بھی شامل تھے۔ کامل علی آغا کو عمران خان نے نہیں پی ڈی ایم نے سینیٹر بنایا۔ پھر 3؍ مارچ 2021کا دن آیا۔ اس دن پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے حکومت کے امیدوار حفیظ شیخ کو شکست دے کر کھلبلی مچا دی۔

یوسف رضا گیلانی دراصل مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں سے جیتے اور اُن کی جیت میں تحریک انصاف کے اُن اراکین قومی اسمبلی نے اہم کردار ادا کیا جنہیں مسلم لیگ (ن) نے آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا۔

گیلانی صاحب کی جیت پر مریم نواز نے بالکل صحیح کہا کہ سینیٹ کے الیکشن میں پیسہ نہیں بلکہ ہمارا ٹکٹ چلا ہے۔ 3؍ مارچ کے بعد 12؍ مارچ کا دن آیا۔ یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ کے لئے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار تھے لیکن اپنی پارٹی کی غلطی سے ہار گئے۔

اُن کی شکست میں تو غلطی صاف نظر آ رہی تھی لیکن ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری کی شکست میں غلطی نہیں بلکہ بد دیانتی اور ضمیر فروشی چیختی اور ناچتی ہوئی دکھائی دی۔ پیپلز پارٹی والوں کے پاس گیلانی صاحب کی شکست کا جواز موجود تھا لیکن حیدری صاحب کی شکست پر کھسیانی سی مسکراہٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بہرحال 14؍ مارچ کو آصف علی زرداری نے نواز شریف کو فون کیا اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کی حمایت پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔

15؍ مارچ کو زرداری صاحب کو بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) اعظم نذیر تارڑ کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنانا چاہتی ہے اور تارڑ صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملوث دو پولیس افسروں کے وکیل ہیں۔ زرداری صاحب کو یہ نہیں بتایا گیا کہ سینیٹ کے الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے وعدہ کیا تھا کہ اگر گیلانی صاحب چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑیں گے تو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) کا ہو گا۔

زرداری صاحب نے مسلم لیگ (ن) والوں کو پیغام بھجوایا کہ سینیٹ میں ہماری پارٹی کے نمبرز زیادہ ہیں، آپ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ہمیں دے دیں۔ جواب میں انہیں کہا گیا کہ قومی اسمبلی میں ہمارے نمبرز زیادہ تھے، ہم نے آپ کے آدمی کو مشترکہ امیدوار بنایا اور حکمران جماعت کے ووٹوں کے لئے بھی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کا وعدہ کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر آپ کو اعظم نذیر تارڑ پر اعتراض ہے تو سعدیہ عباسی کو اپوزیشن لیڈر بنایا جا سکتا ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری مصر تھے کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ہمارا ہو گا۔

16؍ مارچ کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس تھا۔ دوپہر 12؍ بجے کے بعد میں نے پی ڈی ایم میں شامل ایک جماعت جے یو پی کے رہنما اویس نورانی سے پوچھا کہ کیا آج پی ڈی ایم ٹوٹ جائے گی؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔

نورانی صاحب سے یہ اس لئے پوچھا کہ پی ڈی ایم کے پچھلے اجلاس میں پیپلز پارٹی والوں کے ساتھ اُن کی بہت تلخی ہوئی تھی۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ آج پیپلز پارٹی کی طرف سے تلخی کا مظاہرہ ہو گا لیکن اویس نورانی نے میری اطلاع کو نظر انداز کر دیا۔ اسی شام کو آصف علی زرداری کی ایک تقریر نے پی ڈی ایم کے اندرونی اختلافات کو گلی محلوں میں بحث مباحثے کا موضوع بنا دیا۔ اس تقریر میں اعظم نذیر تارڑ کا ذکر نہیں تھا بلکہ صرف اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کا اعلان تھا۔

یہ اعلان نرم الفاظ میں بھی ہو سکتا تھا لیکن شاید زرداری صاحب کو بتایا گیا تھا کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن سے سخت الفاظ میں بات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ بھی بیمار ہیں لیکن آپ کا نام ای سی ایل پر موجود ہے اور نواز شریف کا نام نکل گیا۔ اس لئے کہ اُن کا ڈومیسائل پنجاب کا ہے۔ زرداری صاحب نے اپنی تقریر میں ڈومیسائل کا طعنہ بھی مار دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ہمارے استعفے چاہئیں تو نواز شریف کو پاکستان آنا ہو گا۔ زرداری صاحب نے وہی بات کر دی جو عمران خان بھی بار بار کرتے ہیں۔

اس موقع پر پی ڈی ایم کی دس میں سے نو جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑی تھیں۔ اصولی طور پر پیپلز پارٹی کو اکثریت کا فیصلہ ماننا چاہئے تھا یا پی ڈی ایم کو چھوڑ دینا چاہئے تھا لیکن پیپلز پارٹی نے صلاح مشورے کے لئے کچھ وقت مانگ لیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت زرداری صاحب کی تقریر سے خوش نہیں لیکن یہ بیچارے بول نہیں سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی اراکین پارلیمنٹ نے مجھے ذاتی طور پر کہا کہ اسمبلیوں سے استعفوں پر اصرار کا بہت نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ عمران خان پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ بنا دے گا لیکن یہ بیچارے بھی بول نہیں سکتے۔

یہی حال تحریک انصاف والوں کا ہے۔ حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت اپنے وزیراعظم کی پالیسیوں سے سخت ناخوش ہے لیکن یہ بھی بولتے نہیں، صرف موقع ملنے پر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے وعدے پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ ڈال دیتے ہیں۔

پی ڈی ایم اجلاس میں زرداری صاحب کی ’’تاریخی‘‘ تقریر نے حکمران جماعت کے اُن ایم این اے حضرات کو سخت پریشان کر رکھا ہے جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے وعدے پر گیلانی کو ووٹ دیئے۔ آئندہ یہ صاحبان اپنے ضمیر کی آواز پر عمران خان کو دھوکہ دینے سے پہلے دس مرتبہ سوچیں گے۔

زرداری صاحب نے اپنی تقریر سے کم از کم قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا راستہ دشوار کر دیا ہے کیونکہ آئندہ پیپلز پارٹی پر اعتبار کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ عمران خان کے لئے سب اچھا ہے۔ خان صاحب نے الیکشن کمیشن کے ساتھ جو پنگا لیا ہے وہ انہیں مہنگا پڑے گا۔

16؍ مارچ کو زرداری صاحب نے جو پی ڈی ایم کے ساتھ کیا وہ میرے لئے غیر متوقع نہیں تھا۔ آنے والے دنوں میں عمران خان کے ساتھ جو ہو گا وہ بھی غیر متوقع نہیں ہو گا۔ 4؍ فروری 2021کو اس ناچیز نے ’’ایک تھی تحریک انصاف‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں عمران خان اور اُن کی اپوزیشن کو ایک سراب قرار دیا۔

اس کالم کے آخری الفاظ دوبارہ دہرا رہا ہوں۔ ’’پی ڈی ایم کی کمزور حکمتِ عملی کے باعث عمران خان کی حکومت تو قائم ہے لیکن تحریک انصاف ماضی کا قصہ بن چکی۔ اگر عمران خان کے لئے سب اچھا نہیں تو پی ڈی ایم کی دو جماعتوں کے لئے بھی سب اچھا نہیں۔ آئین کے اندر ہی اندر ایسا بہت کچھ ہو سکتا ہے کہ عمران خان بھی بہت کچھ کھو سکتے ہیں اور پی ڈی ایم بھی بکھر سکتی ہے۔ پھر تاریخ میں یہی لکھا جائے گا کہ ایک تھی پی ڈی ایم اور ایک تھی تحریک انصاف‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں