دو بے بصر بصیرتیں، تحریر: عمران رشید

مشرق اور مغرب میں بُعد المشرقین تو ہے ناں۔فاصلے اپنی جگہہ،معاشرت اور معیشت میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے۔خیالات اور افکار بھی دور دور تک نہیں ملتے جلتے۔
یہ سب اپنی جگہ بجا،پر ایسا بھی نہیں کہ سب جہتوں میں مغرب ہی باقی دنیا کے لئے سنگ میل اور باعث تقلید ہے۔
مشرق میں مسلمانوں کا کردار کسی بھی لحاظ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ ھم میں بہت سے لوگ ذہنی مرعوبیت کا شکار ہیں۔
اور ہوں بھی کیوں ناں،ساری ابلاغیات پہ ان کا قبضہ ہے۔اور جو قومیں اپنے آباء کے قصّے دوسروں کی زبانی سنیں ان کا یہی حال ہوتا ہے۔
اُس رحمتِ تمام کا شکر ،احقر کو اپنے مسلمان ہونے اور اور اپنی نسبت سے اظہار میں،مغرب میں رہتے ہوئے کوئی معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔میری ایک کو لیگ ہے،عمر ساٹھ سے کچھ اوپر۔کینیڈین یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی ہے۔کبھی گفتگو ہو تو عموماً ابراہیمی ادیان زیرِ بحث آتے ہیں۔سفید فام ہے تو نسلی برتری کا احساس بھی لیے ہوئے ہے۔
اکثر بذلہ سنجی کی آڑھ میں سفید فام نسل کا باقی دنیا پر،چھ صدیوں سے روا ظلم وجور گوش گزار کرتا رہتا ہوں۔تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی خاتون ہے۔گفتگو میں چھپی چوٹوں اور تلخ حقائق کو بڑی عمدگی اور خندہ پیشانی سے برداشت کر جاتی ہے۔ویسے بھی ان کی گُرگ آشتی اور گُرگ آشنائی سے کون نہیں آگاہ۔
ڈاکٹر ڈوروٹا مطالعہ کی شوقین اور یونانی فلاسفی کو نوکِ زبان رکھتی ہے۔
اس دفعہ دوران گفتگو جان ملٹن کا ذکر آگیا،بتانے لگی مغرب کی نشاتہ ثانیہ کا باعث ملٹن کی مشہور زمانہ رزمیہ نظم ‘پیراڈائز لاسٹ ‘ تھی۔
میں نے اسے ڈاکٹر طٰحہ حسین سے متعارف کروایا۔
جو کام ملٹن نے شاعری سے مغرب میں کیا وہ کام نثر سے طٰحہ حسین نے عرب دنیا میں کیا۔
عرب دنیا میں اور خصوصاً شمالی افریقہ میں نشانہ ثانیہ کا فکری مواد طٰحہ حسین کی تحریروں نے فراہم کیا۔
جان ملٹن کی زبان دانی کی بات ہو تو وہ انگریزی زبان کے عناصرِ اربعہ اور دنیا کے بارہ بڑے شاعروں میں سے ایک تھا۔پیدائیشی کتابوں کا شوقین،اور صرف بارہ سال کی عمر میں کثرتِ مطالعہ کے باعث ایک آنکھ کی بینائی سے متاثر ہو گیا۔ملٹن کے باپ کا خیال تھا کہ اس کو پادری بنا دیا جائے۔وسعتِ نظری اور افکار میں تنوع کے لیے ملٹن کے باپ نے اسے سوا سال کے لئے اطالیہ بھیج دیا۔
یہ دور انگلستان میں جمہور کی جدو جہد کا تھا۔
ملٹن کا پہلا شاہکار’ میلادِ مسیح کی صبح’ تھا۔
خود ملٹن لکھتا ہے،اس کا باپ اپنی دیانت اور ماں خیرات کرنے میں مشہور تھی۔تو کیسے ہو سکتا ہے بندہ اپنے مذہب سے یکسر لا تعلق ہو جائے۔وہ صُحفِ انبیاء کا متبحر عالم بھی تھا۔
لیکن بعد میں طبیعت میں سرکشی،بغاوت اور آزادی افکار در کرتی گئی۔جمہوریت کے حق میں نثریں بھی لکھیں،پھر ایک اور نظم’لیسی دس’ لکھی۔وہ بھی شاہکار مانی گئی۔پھر بیس سال ماسوائے چند سونیٹ کے کچھ خاص نہ لکھا۔ان بیس سالوں میں جیل بھی کاٹی،اس کی کتابیں بھی جلائی گئیں،تین نا آسودہ شادیاں بھی بھگتائیں۔جس میں پہلی شادی صرف ایک ماہ چلی۔ملٹن نے خود کو اخلاقی طور پر اپنی بیوی میری بوسوا سے علیحدہ کر لیا،کیونکہ اس وقت کی مسیحی روایات طلاق کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقوں میں طلاق کی ممانعت تھی۔ملٹن نے سماج اور مسیحی روایات سے بغاوت کا علم بلند کیا اور طلاق کے حق میں نثریں لکھیں۔انسانی معاملات،وارداتِ قلبی،معاشرے کی روش اور چال چلن کا عمیق مطالعہ اور عملی تجربہ حاصل کیا۔دل حساس اور باغی ہو گیا۔چوالیس سال میں دوسری آنکھ کی بینائی سے بھی محروم ہو گیا۔
لیکن جب فردوس گم گشتہ اور شمعون مباذر لکھی تو دنیا کو شاندار ادب دے گیا۔
شائید بیس سال کے حوادثِ زمانہ اور مشاہدات سِمٹ کر بینائی سے محروم آنکھوں میں اُتر آئے تھے۔
فردوس گم گشتہ میں پتہ نہیں اس کا کیا ارادہ رہا ہو۔مگر اطاعت الٰہی کی تعلیمات دیتے دیتے،شیطان کے کردار کو ھیرو بنا گیا۔اس میں شیطان کا کردار بہت جاندار اور طاقتور ہے۔ایک فقرہ دیکھیں جو ضرب المثل اختیار کر گیا۔
“جہنم میں حکومت کرنا،جنت میں غلامی کرنے سے بہتر ہے۔
یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اس نے اپنے منفرد شاعرانہ طرزِ اسلوب سے بائیبل کی کہانیوں کی کسی انجیلی پیغمبر کی طرح ازسرنو شرح مرتب کی۔اور یورپ میں نشاتہ ثانیہ کی نیو اُٹھائی۔
اُدھر عرب دنیا کے اندر مصر میں ڈاکٹر طٰحہ حسین نے بڑے علمی نثری انقلاب برپا کیے،اگرچہ روائتی اسلامی طبقے نے ان کے کام کو قابلِ مذمت بھی قرار دیا۔ھمیں یہاں ان کی ایمانیات سے تعلق نہیں۔ان کے تحقیقی اور روایت سے ہٹ کے کام سے غرض ہے۔طحہ حسین تین سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہو گئے۔
اپنی سوانح عمری میں بچپن کی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“میری ماں مجھے وہ سارے کام کرنے نہیں دیتی تھی،جو میرے دوسرے بہن بھائی کر لیتے تھے۔
عمر بڑھنے کے ساتھ یہ غم اور سوا ہوتا گیا۔”
اور لکھا کہ حصول تعلیم کے لئے قاہرہ کی گلیوں میں دھکے کھانا اور دیواروں کو ٹٹول ٹٹول کر چلنے کا کرب وہی جان سکتا ہے،جس کو خدا نے اس نعمت سے محروم رکھا ہو۔
بڑھتی ہوئی رجعت پسندی اور اسلامی دنیا میں ضعیف الاعتقادی کا زور کم کرنے میں ان کی تحریروں نے بہت قوی کردار ادا کیا۔پیرس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی،دورانِ تعلیم سوزان سے شادی کر لی۔
ملٹن کے برعکس سوزان کو طٰحہ حسین اپنے لیے فرشتہ رحمت اور اپنا مونس و غمخوار گردانتے۔سوزان طٰحہ کو دنیا جہان کی کتب اور مقالات پڑھ کر سنایا کرتی،اور یوں تحقیقی کام میں ممدو معاون ثابت ہوتی.
طٰحہ حسین کو اس وقت شدید ریاستی اور عوامی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔جب 1927میں اپنی تحقیقی کتاب”زمانہ قبل از اسلام میں ادب” میں اپنی علمی کاوشوں کا نچوڑ بتاتے ہوئے لکھا۔
کہ ہمیں روائتی عرب تمدن جس میں علاقائی قصے کہانیاں بھی شامل ہیں،ان سے ہٹ کر حقائق کا جائزہ لینا چاہیے۔کیونکہ عربی زبان سے مسلم دنیا کی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،اور عام جمہور بھی عربی ثقافتی تمدن کو تقدس تک بڑھا دیتے ہیں۔
رجعت پسند طبقے نے شدید تنقید کی۔
بلکہ مصر میں ایک وقت ایسا بھی گزرا کہ طٰحہ حسین کا نام لینا بھی دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
علم کی ترویج میں ان کی بہت زیادہ خدمات ہیں۔ان کی سوانح حیات “الایام” عربی زبان کا اک شاہکار ہے،جس کے کئی زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے۔
طٰحہ حسین کا سب سے قابل ستائش کام 1950 میں مصر میں بطورِ وزیر تعلیم بارہویں تک ہر امیر و غریب کے لیے مفت تعلیم کا آغاز کرنا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے اس کا دائرہ کار اور عرب ممالک تک بڑھانے میں اپنے دل و دماغ کی تمام توانائیاں صرف کردیں۔حکومتوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا،لیکن اپنے حصے کی شمعیں روشن کر گئے۔
ان کا کہنا تھا۔
“تعلیم دھوپ اور تازہ ہوا کی طرح ہے،جو کوئی اس کی تلاش میں نکلے اس کو یہ ملنی چاہیے”
اپنی شبانہ روز کاوشوں سے مصری اور اسکندریہ یونیورسٹی کو دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کی صف میں کھڑا کردیا۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں۔

“بصیرتوں کا نظر احترام کرتی ہے

سماعتوں سے خموشی کلام کرتی ہے”

جان ملٹن کی بصیرت کا اہل مغرب نے خوب اندازہ کر کے اس سے بھرپور استفادہ کیا ۔اور آج تمام مغرب بقعہ نور بنا ہوا ہے،اور ان ممالک کی چکا چوند سے آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں۔
جب کہ طٰحہ حسین کی پُر علم چالیس سے زائد تصنیفات آج بھی مختلف کتب خانوں میں پڑی ،مسلمانوں کی جدت پسندی اور افکارِ تازہ سے احتراز اور فرار کی ہزار سالہ روش سے خاموش احتجاج اور کلام کر رہی ہیں۔
آسمانی دنیا کو دل و دماغ میں بسائے ،حیاتِ ارضی کو بھی کٹھن کیے جا رہے ہیں۔کیونکہ جدید علوم سے لا علمی اور لا تعلقی کے باعث خود ان کا ارضِ زمین پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
کیا کیجئے ھماری ہزار سالہ تاریخ ہی ہمیں بتا رہی ہے کہ کم از کم علمی معاملات میں ہم آج بھی اس رویے سے جان نہیں چھڑوا سکے۔

“دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں کون ہے کس رنگ میں

سوچتی رہتی ہے دنیا کس کو رُسوا کیجئے”
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں