اسلام آباد ہائیکورٹ نے یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ الیکشن کیخلاف درخواست قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کی پروسیڈنگ کو استثنی حاصل ہے، آرٹیکل 69 سے کیسے باہر جا سکتے ہیں؟۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین سینٹ الیکشن کے نتائج کے خلاف پیپلزپارٹی کی درخواست پر سماعت کی۔ سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور جاوید اقبال عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ صدر نے جی ڈی اے سے سید مظفر حسین شاہ کو بطور پرائزاڈنگ مقرر کیا، ووٹ کیسے مارک ہوگا اس کا ذکر رولز میں موجود نہیں۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی اس پراسس میں شامل تھا ؟ اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا الیکشن کمیشن سے کوئی اس پراسس میں شامل نہیں تھا۔
اسلام آبا ہاہئیکورٹ میں وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا کہ 12 مارچ کو الیکشن میں صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ قرار دیا گیا، 7 ووٹوں کو مسترد کر کے یوسف رضا گیلانی کے ہارنے کا اعلان کر دیا، پرائزاڈنگ آفیسر نے خانے کے اندر نام پر سٹیمپ لگانے ووٹ مسترد کئے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کس قانون کے تحت یہ الیکشن ہوئے ہیں ؟ جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 60 کے تحت یہ الیکشن ہوئے ہیں۔ عدالت نے فاروق ایچ نائیک کو آئین کا آرٹیکل 60 پڑھنے کی بھی ہدایت کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کیا یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل تھی ؟ جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا یوسف رضا گیلانی کو الیکشن کے روز بھی اور آج بھی سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اگر یوسف گیلانی کے پاس اکثریت ہے تو وہ صادق سنجرانی کو ہٹا سکتے ہیں۔
عدالت نے کہا کیا آئین میں کوئی متبادل فورم نہیں ؟ وکیل فاروق ایچ نائیک کوئی متبادل فورم نہیں صرف عدالت فیصلہ کرسکتی ہے ووٹ صحیح مسترد ہوئے یا نہیں؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پارلیمنٹ بڑے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہے، کیا اپنا مسئلہ حل نہیں کرسکتے ؟ کیا عدالت کو پارلیمانی مسائل میں مداخلت کرنی چاہیے؟۔ عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔