پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوئی۔

دوران سماعت حکومت پنجاب کے وکیل قاسم چوہان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی الیکشن نا ہونے کی وجہ کورونا بھی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے 6 ماہ کے لیے بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کے بعد انتخابات کا اعلان کیا گیا، اس کے بعد 21 ماہ کی توسیع کی گئی، اور اب انتخابات کو مشترکا مفادات کونسل سے مشروط کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کو محدود مدت کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے، آپ نے عوام کو ان کے نمائندوں سے محروم کر دیا ہے۔

وکیل حکومت پنجاب کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے دوبارہ انتخابات میں تاخیر ہوئی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا گلگت بلتستان میں انتخابات نہیں ہوئے؟

جیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اس کی مثال ملتی ہے کہ قانون کو ختم کر دیا جائے اور کہا جائے کل نیا قانون لایا جائے گا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا آپ اس بات کی کیسے وضاحت دے سکتے ہیں کہ عوام کو منتخب نمائندوں سے دور رکھا جائے، آرٹیکل 140 کے تحت قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن اداروں کو ختم نہیں کر سکتے، آپ کو کسی نے ایکٹ لانے کا غلط مشورہ دیا ہے، حکومت کی ایک حیثیت ہوتی ہے چاہے وہ وفاقی ہو، صوبائی یا بلدیاتی ہو۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ آپ اختیار میں تبدیلی کر سکتے ہیں، بنیادی ڈھانچہ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ کا سیکشن 3 آئین کے آرٹیکل 140 اے کی خلاف ورزی اور غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو 5 سال کے لیے منتخب کیا، ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز اور شہری اسد علی خان کی درخواست منظور کرتے ہوئے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں