سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈینئل پرل قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ احمد عمر شیخ کیخلاف اغوا اور قتل کی سازش کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ شواہد کیساتھ قتل ثابت کرنے میں ناکام رہا، اس نے ایک پولیس اہلکار کو ٹیکسی ڈرائیور بنا کر پیش کیا۔ گواہ بنائے ٹیکسی ڈرائیور کو مقتول کی شناخت کیلئے تصویر نہیں دکھائی گئی۔
عدالت عظمیٰ نے پاکستانی تاریخ کے انتہائی اہم کیس کے فیصلے میں لکھا کہ ہتھکڑی لگا ملزم اعتراف جرم کرے بھی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں، قتل کی پیش کی گئی ویڈیو میں ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی۔ قتل کی اصل ویڈیو پولیس سے جان بوجھ کر چھپائی گئی۔ اصل ویڈیو کلپ مل جاتا تو فرانزک کرایا جا سکتا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ڈینئل پرل کے اہلخانہ کی وجہ سے تفتیش میں خامیاں سامنے آئیں۔ ڈینئل پرل کی اہلیہ نے قتل کی دھمکیوں والی ای میلز کو چھپائے رکھا۔ شوہر کی جان خطرے میں تھی اور اہلیہ 12 روز خاموش رہی۔ ایف آئی آر میں ای میلز کا ذکر نہ اہلیہ شامل تفتیش ہوئیں۔
تاریخی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتوں کا کام تفتیشی نقائص کو دور کرنا نہیں،
استغاثہ کی تمام کہانی شکوک وشبہات سے بھری پڑی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے 3 رکنی بینچ کے فیصلے سے اختلاف کیا۔