کمال کے لیڈر

وہ کہا کرتے تھے کہ میرے پاس ٹیم ہے۔ میری ٹیم نے ہر محکمے کے حوالے سے ہوم ورک کیا ہے ۔یہ ٹیم 3 ماہ میں پاکستان بدل دے گی۔ اقتدار ملا تو پتہ چلا کہ ٹیم ہے اور نہ تیاری لیکن پھر بھی قصور ان کا نہیں، ٹیم کا ہے۔ کسی اور نے نہیں ،خود انہوں نے اسد عمر کو پوسٹر بوائے اور معاشی ٹیم کا قائد بنایا۔ اسی اسد عمر کے ایما پر انہوں نے کروڑوں گھر بنانے اور کروڑوں نوکریاں دلوانے کے غیرحقیقی وعدے کئے تھے۔

ہم جیسے معیشت سے نابلد طالب علم چیختے رہے کہ اسد عمر مارکیٹنگ کے ماہر ہیں اور وہ بھی اپنی ذات کی مارکیٹنگ کے لیکن ان کا اصرار رہا کہ اسد عمر جیسا ماہر معیشت کوئی نہیں۔ ان کے لیڈر نے کہا تھا کہ وہ خودکشی کرلیں گے لیکن آئی ایم ایف نہیں جائیں گے، اس لئے وہ کئی ماہ تک گومگو کا شکار رہے۔ اس مسلسل بے یقینی کی وجہ سے معیشت کا بیڑہ غرق ہوگیا۔

چنانچہ اسد عمر ناکام وزیرخزانہ ڈکلیئر کرکے فارغ کردیے گئے لیکن اس کے باوجود وہ کمال کے لیڈر ہیں کیونکہ وہ عمران خان ہیں۔

اسد عمر کو ہٹا کر انہوں نے حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ مقرر کیا۔ سب لوگ چیختے رہے کہ یہ صاحب زرداری اور مشرف کے معاشی مینیجر رہے ہیں۔ حفیظ شیخ نے پاکستانی معیشت کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیا لیکن خان ان کے اتنے گرویدہ رہے کہ وزیر بنانے کے لئے انہیں سینیٹر بنانے پر بھی مصر رہے۔

انہوں نے معیشت اور اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کے لئے جو اقدامات اٹھائے اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے خان صاحب نے اس کے لئے ناجائز طور پر آرڈیننس کے ذریعے قانونی سازی بھی کی۔ پھر اچانک ان کو ناکام ڈکلیئر کرکے فارغ کردیا۔

حفیظ شیخ کو لگانے والے بھی خان صاحب، دفاع کرنے والے بھی خان صاحب اور اب فارغ کرنے والے بھی خان صاحب لیکن اس کے باوجود خان صاحب کمال کے لیڈر ہیں کیونکہ وہ عمران خان ہیں۔

ندیم بابر کو توانائی کا محکمہ نواز شریف یا زرداری نے نہیں بلکہ عمران خان نے عنایت کیا۔ ہم جیسے ناقد تو کیا عمران خان کے حامی میڈیا پرسنز بھی چیختے رہے کہ ندیم بابر خود اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔

جیو نیوز کے شاہزیب خانزادہ درجنوں پروگرام کرکے بروقت توجہ دلاتے رہے کہ ندیم بابر کی وزارت ملکی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکا لگوارہی ہے لیکن جواب میں عمران خان کے ترجمان شاہزیب خانزادہ کی کردارکشی کرتے رہے۔

اب عمران خان کے تین وزرا نے ایک ساتھ بیٹھ کر اعلان کیا کہ شاہزیب خانزادہ جو کچھ کہتے رہے وہ درست تھا اور یہ کہ ملکی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکا لگا دیا گیا۔ بہ ہر حال ندیم بابر کی چھٹی کرادی گئی، لیکن پھر بھی عمران خان کمال کے لیڈر ہیں کیونکہ وہ عمران خان ہیں۔

پیپلزپارٹی کے دور میں فردوس عاشق اعوان کے کارندے افتخار درانی کو عمران خان نے اپنا معاونِ خصوصی بنا دیا کیونکہ وہ مخالفین کی کردار کشی کے ماہر تھے۔ پھر جب ان کے خلاف ایجنسیوں کی رپورٹیں آئیں تو خان صاحب کو مجبوراً انہیں ہٹانا پڑا لیکن جب شبلی فراز صاحب وزیر بنے تو وزارتِ اطلاعات سے ناواقفیت کی وجہ سے انہوں نے عملاً اپنا سارا کام اسی افتخار درانی کے سپرد کئے رکھا اور خان صاحب تماشا دیکھتے رہے لیکن پھر بھی خان صاحب کمال کے لیڈر ہیں کیونکہ وہ عمران خان ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کو انہوں نے مرکز میں اطلاعات کی وزارت سونپی تب بھی خوشامدی ترجمانوں نے ان کے فیصلے کو سراہا۔ پھر انہیں ہٹایا گیا تو بھی ان لوگوں نے ان کے فیصلے کو سراہا۔

پھر انہیں پنجاب میں وزارتِ اطلاعات سونپی گئی، تب بھی ان کے فیصلے کو سراہا۔ وہ لگائیں تو بھی زندہ باد اور ہٹائیں تو بھی زندہ باد۔ وہ کچھ بھی کریں تو کمال کے لیڈر ہیں کیونکہ ان کا نام عمران خان ہے۔ اب تو پاکستان میں ایک نیا لطیفہ جنم لے رہا ہے کہ اتنے عمران خان کپڑے نہیں بدلتے جتنے وزرا اور ان کے محکمے بدلتے ہیں۔ شاید خان صاحب کی تبدیلی سے مراد یہی تھی کہ صبح ایک وزیر اور شام کو دوسرا وزیر۔

آخر میں نواز شریف حکومت کا ایک واقعہ۔ نواز شریف جب کوئی بات منوانا چاہتے تھے تو وہ پہلے سے کابینہ میں کچن کیبنٹ کے دو تین بندوں کو تیار کر لیتے تھے کہ وہ اجلاس میں یہ بات چھیڑیں۔ انہوں نے کچھ وزرا کے محکمے تبدیل کرنے کا ذہن بنایا تھا چنانچہ حسبِ عادت دو تین وزرا کو ڈیوٹی دی کہ وہ یہ بات چھیڑیں۔ اجلاس میں ایک وزیر نے محکموں کی تبدیلی کے حق میں دلائل دیے، پھر دوسرے اور پھر تیسرے نے۔

آخر میں شاہد خاقان عباسی کی رائے مانگی گئی حالانکہ ان کی وزارت کی تبدیلی کا ارادہ نہیں تھا لیکن شاہد خاقان الٹا پڑ گئے۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب اگر ایک بندہ ایک وزارت میں ناکام ہے تو وہ دوسری میں بھی ناکام رہے گا اور اگر ایک میں کامیاب ہے تو دوسری میں بھی کامیاب رہے گا۔

اگر ہمارا کوئی وزیر اپنی وزارت صحیح نہیں چلا سکا تو پھر انہیں دوسری وزارت دینے کا کیا جواز؟ یوں بھی جب کسی بندے سے وزارت لی جائے گی تو قوم میں اس کی ناکامی کا تاثر جائے گا اور ناکام آدمی کو پھر وزیر نہیں بنانا چاہئے۔ شاہد خاقان کی یہ باتیں سن کر میاں نواز شریف نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا اور پھر وزارتوں کی تبدیلی کا نام بھی نہیں لیا لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان کی کابینہ میں کوئی شاہد خاقان ہے؟ یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک خوشامدی ہے جو خان کے سامنے منہ کھولنے کی ہمت ہی نہیں کر سکتا۔ وزیر اور مشیر کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم سلیکٹ کرتا ہے۔

اب یہ عجیب تماشہ ہے کہ ہر الزام سلیکٹڈ کے سر تھوپا جاتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ غلطی سلیکٹر کی ہے جو صحیح سلیکشن کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں