بھارت کے ساتھ تجارت

معاشرہ، معاش سے نکلا ہے اور نام ہی معاشی رشتوں کا ہے اور آئیڈیل معاشرہ وہ ہے جس میں معاشی تقسیم منصفانہ اور متوازن ہو ۔نہ کوئی بھوک کا شکار ہو نہ بدہضمی کا۔فرمایا ’’جب کچھ لوگوں کے پاس ضرورتوںسے بہت زیادہ مال اکٹھا ہو جائے تو یہ جان لو کہ بہت سے لوگ بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گئے ‘‘ یہ ہے منصفانہ اور متوازن معاشرہ جس کی تلاش ہی اصل کامیابی ہے کیونکہ اقتصادی انصاف لاتعداد انسانی بیماریوں کا علاج ہے اور ان میں نفسیاتی بیماریاں بھی شامل ہیں ۔

اب ذرا ایک نظر آج کی دنیا پر جسے آج کل ’’گلوبل ویلیج‘‘ کہا جاتا ہے اور میں اسے عرصہ دراز سے ’’گلوبل مارکیٹ ‘‘ لکھ رہا ہوں۔دنیا کی ہر سرگرمی دراصل معاشی ایکٹویٹی ہے۔ یہاں تک کہ والدین اور اولاد کے رشتہ میں بھی غلبہ اقتصادی نوعیت کا ہی ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان ۔ذرا غور کیجئے ہمارے ہاں بیٹوں کو بڑھاپے کا سہارا اور بیٹیوں کو ’’پرایا دھن‘‘ کہا جاتا ہے ۔

ایک ماحول ایک چھت تلے پروان چڑھنے والے بچے جوان ہو کر ’’حصوں‘‘ کے حصول کی خاطر عدالتوں تک جا پہنچتے ہیں اور دوسری طرف اولاد فرمانبردار بھی ہو تو ان کے خودکفیل ہو جانے پر ماں باپ سے ان کے تعلق میں تھوڑی بہت تبدیلی سو فیصد فطری بات ہے اور اس کے پیچھے بھی معاش اور معاشیات کا رول نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ سب کچھ روز اول سے ہے جو بتدریج وسیع تر اور پیچیدہ ترین ہوتا چلا گیا جس کی باٹم لائن جوں کی توں موجود ہے ۔آج کی ہر حکومت اقتصادی اور سائنسی ہے ۔ایجادات اور اقتصادیات کا بھی آپس میں اٹوٹ اور گہرا رشتہ ہے۔دنیا ہمیشہ سے ہی ’’قلت زر ‘‘ اور ’’کثرت زر‘‘ کے درمیان رسہ کشی کا نام تھی،ہے اور رہے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کشمکش زیادہ پیچیدہ، سنگین اور سفاک ہوتی چلی جائے گی۔برنرڈ شانے کہا تھا ’’دنیا کا سب سے بڑا اور بدترین گناہ افلاس ہے ۔زناکاری، قتل، غبن، ڈاکہ زنی، رشوت خوری، سمگلنگ، چوری، نشہ، جوا جیسے تمام تر گناہ، غربت کے مقابلہ میں مجسم نیکیاں ہیں ‘‘۔زندگی بہت مشکل اور مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور اس کا ا طلاق افراد پر ہی نہیں حکومتوں پر بھی ہوتا ہے ۔اقتصادی طور پر مفلوج ملکوں کی ’’ساورنٹی‘‘ کے سامنے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔

اس مختصر سی لیکن انتہائی اہم تمہید کے بعد آتے ہیں پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تجارت کی طرف جسے کچھ سادہ لوح حکومت کا ’’یوٹرن‘‘ قرار دے رہے ہیں کیونکہ جانتے ہی نہیں یا جاننا چاہتے ہی نہیں کہ یہ فیصلہ سو فیصد درست اور زمینی حقائق کے عین مطابق ہے جس پر حکومت داد کی مستحق ہے۔

بھارت سے چینی، یارن، کاٹن کی درآمد ایک مثبت اور احسن فیصلہ ہے ( یاد رہے بھارت میں چینی 20فیصد کے لگ بھگ سستی ہے ) ممکن ہے یہ ایک پاپولر فیصلہ نہ ہو اور کچھ لوگ اسے حکومت کے خلاف بھی استعمال کرنے کی کوشش کریں لیکن میری دیانتدارانہ رائے کے مطابق یہ فیصلہ زمینی حقائق کے عین مطابق ہے ۔مجھے یقین ہے کہ بھارت میں چینی، یارن، کاٹن کی لابیز بہت طاقتور اور موثر ہوں گی ۔’’اجازتوں‘‘ کے دائرہ میں وسعت کے بعد دیگر اشیاء کی لابیز بھی متحرک ہوں گی تو نہ صرف پاک وہند بلکہ اس پورے خطہ کیلئے یہ ایک نیک شگون ہوگا۔

سوسو سال تک آپس میں جنگیں لڑنے والے گوروں کو عقل آ گئی تو کیا اس خطہ کے لوگ اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ صدیوں ساتھ رہنے کے باوجود اپنے تنازعات مکالمہ سے طے کرکے ترقی پر فوکس نہ کر سکیں ۔دونوں طرف غربت، جہالت، بیروزگاری عروج پر ہے تو کیا ان کروڑہا بدقسمت انسانوں کے نصیب میں یہی کچھ لکھا ہے ؟جدید دنیا کی کوئی جنگ ایسی نہیں جو میدان و آسمان سے نکل کر مذاکرات کی میز اور مکالمہ تک نہ آئی ہو اور یوں بھی محاورتاً نہیں حقیقتاً دنیا بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کسی کے بھی وارے میں نہیں اس لئے اس طرح کے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔کتنی احمقانہ بات ہے کہ واہگہ بارڈر کےساتھ پیدا ہونے والی اشیاء وہاں سے ممبئی جائیں،ممبئی سے یو اے ای پہنچیں تو قیمت میں اس خاطر خواہ اضافہ کے بعد ہم انہیں یو اے ای سے امپورٹ کریں۔

میری دعا ہے کہ یہ تجارت بابرکت ثابت ہو اور اس خطہ کا عام آدمی بھی سکھ کا سانس لیکر مین سٹریم میں آکر اپنی وہ صلاحتیں منوا سکے جو غربت کے بوجھ تلے سسک رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں