وزیراعظم عمران خان کے قریبی سمجھے جانے والے کابینہ کے ایک وزیر نے دعویٰ کیا ہے کہ عثمان بزدار کو آخری وارننگ دیدی گئی ہے کہ کارکردگی دکھائیں ورنہ نتائج بھگتنے کو تیار ہوجائیں۔
کابینہ کے ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ کارکردگی دکھانے کے معاملے میں عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کو چند ماہ کا وقت دیا ہے۔
ذریعے نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ صلاحیت کا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران، وزیراعلیٰ پنجاب اخبارات کیلئے سیاسی بیانات جاری کرنے کے معاملے میں خاصے فعال نظر آ رہے ہیں اور ساتھ ہی حکومت کی ’کارکردگی‘ پر پریس کانفرنسز بھی کر رہے ہیں۔
تاہم کابینہ کے وزیر نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی میں ہر شخص ماسوائے وزیراعظم یہ سمجھتا ہے کہ بزدار کو ایک ایسی ذمہ داری دیدی گئی ہے جو ان کی صلاحیت و استعداد سے بڑی ہے۔ ذریعے نے کہا کہ اگر آپ وزیراعظم کے چپڑاسی سے بھی پوچھیں گے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ بزدار غلط انتخاب ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ بزدار کو اس وقت سخت وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں کیونکہ وہی ان کے تنہا حامی ہیں۔ کابینہ کے ذریعے نے اس نمائندے کو یہ بھی بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق، نون لیگ کی اعلیٰ قیادت نے پارٹی کارکنوں کو عثمان بزدار پر تنقید سے روک دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نون لیگی قیادت جانتی ہے کہ جب تک پنجاب میں بزدار کی حکمرانی ہے اس وقت تک نون لیگ کو فائدہ ہوتا رہے گا اور پی ٹی آئی کو دھچکا لگتا رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی پسند سے خوش نہیں۔ ماضی میں ’اُن لوگوں‘ نے وزیراعظم کو براہِ راست اپنے عدم اطمینان سے آگاہ کر دیا تھا لیکن عمران خان کی رائے ہے کہ اگر بزدار کو ہٹا دیا گیا تو ان کی جگہ پر کس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعے نے کہا کہ وزیراعظم اس عہدے پر علیم خان کو لانا چاہتے ہیں اور نہ ہی میاں اسلم اقبال کو۔ کابینہ کے وزارتی ذریعے نے کہا کہ اگرچہ پی ٹی آئی میں کئی رہنما بزدار کو پسند نہیں کرتے لیکن وہ وزیراعظم کی اس رائے کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی اس عہدے کیلئے دستیاب چوائس کے معاملے میں قلت ہے۔
جب ذریعے سے پوچھا گیا کہ ماضی میں بھی بزدار کی تبدیلی کی خبریں غلط ثابت ہوئی تھیں اور ہر مرتبہ عمران خان عوام کے سامنے آ کر بزدار کی حمایت کر چکے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ بزدار کو آخری وارننگ دیدی گئی ہے اور ان کے پاس کارکردگی دکھانے کیلئے بجٹ تک کا وقت ہے۔ ذریعے نے کہا کہ وارننگ ملنے کے بعد سے کم از کم میڈیا کی حد تک بزدار سرگرم ہوگئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے ساڑھے چار سو ارب روپے مالیت کی ساڑھے 15؍ ہزار ایکڑ سرکاری زمین واگزار کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن تھا اور اس کارروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح کا بلا امتیاز ایکشن چینی اور مہنگائی مافیا کیخلاف بھی کیا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کورونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے ان کی حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے۔
بزدار حکومت پر اس کی خراب کارکردگی اور سرکاری ملازمین (سیکریٹریٹ اور فیلڈ میں موجود) کے بار بار تبادلوں کی وجہ سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ پنجاب میں بیوروکریسی کے امُور میں اس حد تک سیاسی مداخلت پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور بزدار حکومت میں یہ صورتحال معمول کا حصہ بن چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ معاملات وزیراعلیٰ کے کنٹرول میں نہیں۔
حال ہی میں جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ سے دستبرداری کے حوالے سے جاری کردہ نوٹیفکیشن بزدار حکومت کیلئے ہزیمت کا باعث بن چکا ہے، انہوں نے یہ نوٹیفکیشن منسوخ کر دیا اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی کہ نوٹیفکیشن جاری کیسے ہوا تھا۔ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے رہنما بشمول شاہ محمود قریشی (وزیر خارجہ) علاقے کے انتظامی معاملات کی اس طرح سے مس ہینڈلنگ سے ناراض ہوئے تھے۔