ہر ضمنی انتخاب میں اہلِ سیاست کے لئے کئی سبق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ڈسکہ ضمنی انتخاب کے نتائج سے کئی سبق سیکھے جا سکتے ہیں۔ پہلا سبق یہ کہ سنٹرل پنجاب میں 2018 کے بعد سے ابھی تک ن لیگ کی حمایت میں کمی نہیں آئی اور دوسری طرف اگرچہ پی ٹی آئی کا ووٹ بڑھا ہے جو وزیر آباد اور ڈسکہ دونوں ضمنی انتخابات میں نظر آیا مگر ووٹ بینک میں یہ اضافہ ایسا نہیں ہے جس سے ن لیگ کی اکثریت چیلنج ہو سکے۔
اگر تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو 1946کے انتخابات میں مسلم لیگ شہری حلقوں میں کامیاب ہوئی تھی اور یونینسٹ پارٹی دیہی علاقوں سے کامیاب ہوئی تھی۔ 1988اور 1990کے انتخابات میں پیپلز پارٹی شہروں سے اور آئی جے آئی دیہات سے کامیاب ہوئی تھی۔
1993میں پیپلز پارٹی کا انحصار شہری ووٹوں سے ہٹ کر پنجاب کے دیہی علاقوں کی طرف ہو گیا اور سیاسی شعور اور بہتر شرح خواندگی رکھنے والے قصبوں اور شہروں میں ن لیگ کا ووٹ بینک بن گیا، بعد کے الیکشنز میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں یہ فرق رہا۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی دیہی علاقوں کی جماعت کے طور پر ابھر رہی ہے جبکہ شہروں یا قصبوں یا بڑے دیہات جہاں بازار ہیں وہاں ن لیگ کا ووٹ بینک مضبوط نظر آتا ہے۔
ڈسکہ اور وزیر آباد کے ضمنی انتخابات میں یہی رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ تحریک انصاف کے لئے سیاسی طور پر یہ اچھا شگون نہیں ہے کہ وہ یونینسٹ پارٹی کی طرح صرف دیہات میں طاقتور ہے، اصل سیاسی ووٹ بینک تو شہروں میں بیٹھا ہوا ہے۔
ڈسکہ ضمنی انتخاب کے حوالے سے پورے حلقے میں ری پولنگ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رِٹ مضبوط ہوئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے فوری ایکشن لیتے ہوئے بجائے چند پولنگ اسٹیشنز کے پورے حلقے میں ری پولنگ کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے بھی ردوکدکے بعد اسی حکم کو صادر کیا۔
فرض کیجئے اگر چند پولنگ اسٹیشنز پر ری پول ہوتا تو تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی جیت جاتے لیکن چونکہ اس دن جگہ جگہ بالخصوص شہری علاقوں میں پولنگ رکتی رہی تھی اس لئے لازماً وہاں کم ووٹ کاسٹ ہوئے، اس بار پُرامن ماحول میں 19فروری 2021سے زیادہ ووٹ پڑے اور یہی چیز ن لیگ کے فائدے میں بھی گئی۔
10اپریل کو دوبارہ ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج سے یہ واضح بھی ہو گیا کہ 19فروری کے انتخابی نتائج شفاف نہ تھے کیونکہ اس بار نتائج واضح طور پر مختلف ہیں جبکہ اگر پچھلی بار کے سرکاری نتائج دیکھے جاتے تو ان میں علی اسجد ملہی جیت رہے تھے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ن لیگ کے اس الزام میں حقیقت تھی کہ دیہی علاقوں کے بعض پولنگ اسٹیشنز کی گنتی میں گڑ بڑ کی گئی تھی۔
ڈسکہ انتخاب کا پی ٹی آئی کے لئے دھچکا صرف سیاسی شکست نہیں بلکہ یہ ایک ایسی شکست ہے جس میں یہ بیچارے کہہ بھی نہیں سکتے کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے یا کوئی زور زبردستی کی گئی ہے بلکہ اُن کے پاس اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو بہت امید تھی کہ وہ یہ سیٹ نکال لے گی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈسکہ شہر اور چند قصبات کے علاوہ 70فیصد علاقہ دیہی تھا، جہاں ووٹ سیاست کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذات برادری اور دھڑے بندی کی بنیاد پر پڑتے ہیں۔ یہ حلقہ کافی لمبا چوڑا ہے، اس کی سرحدیں سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، نارروال اور حتیٰ کہ شیخوپورہ سے بھی ملتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے لئے مثبت پہلو یہ تھا کہ اس حلقے کے اندر دیہی علاقوں میں جاٹ بیلٹ موجود تھی جہاں کی اکثریتی آبادی علی اسجد ملہی کو سپورٹ کر رہی تھی مگر اس بھرپور حمایت کے مقابلے میں ہر وہ چھوٹا شہر یا قصبہ جہاں لوگ تجارت سے وابستہ ہیں یا وہاں چند دکانیں ہیں، وہاں کا سیاسی رجحان ن لیگ کی طرف رہا۔
ڈسکہ اور وزیر آباد کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو اگر قومی سطح پر منطبق کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ نتائج ان لوگوں کے لئے دھچکا ہیں جو چار برس سے ن لیگ کے خلاف کرپشن کا بیانیہ تیار کر رہے ہیں، انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوا رہے ہیں یا روزانہ ان کے خلاف بیان دیتے ہیں۔ ان نتائج سے یہ لگتا ہے کہ اگرچہ ان کا پروپیگنڈا بڑا زہریلا ہے لیکن ن لیگ کے ووٹر اس پروپیگنڈے کے اثر میں نہیں آئے اور وہ ابھی تک ن لیگ کے بیانیے اور اس کی تعمیر و ترقی کے پروگرام پر یقین رکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی کو وزیرآباد، ڈسکہ اور ملک بھر میں یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف اپنے بیانیے کے علاوہ اپنا کونسا کارنامہ عوام کے سامنے رکھے؟ پی ٹی آئی کی ملک بھر کی سکینڈ درجے کی قیادت کا خیال ہے کہ نوکر شاہی انہیں کوئی بھی منصوبہ مکمل کرنے نہیں دے رہی، قانون سازی میں جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے اور اسی طرح مختلف پروجیکٹس کو لمبا کیا جا رہا ہے تاکہ یہ 5سال کے اندر مکمل نہ ہو سکیں۔
ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر آسانی سے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہےکہ اگر آج پنجاب میں انتخابات کا اعلان ہو جائے تو دو بڑے حریف ن لیگ اور پی ٹی آئی ہوں گے اور اس لڑائی میں برتری ن لیگ کی ہوگی۔ گویا پاکستان تحریک انصاف حکومت میں ہونے کے باوجود پنجاب کی اکثریتی رائے کو تبدیل نہیں کر سکی۔ اس حوالے سے یہ نتائج پی ٹی آئی کے لئے پریشان کن ہونے چاہئیں۔
مجھے ڈسکہ اور وزیر آباد دونوں جگہ پی ٹی آئی کے حق میں مہم چلانے والوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، دونوں جگہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کو مہنگائی اور بیروزگاری کے حوالے سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی اب شاید یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی اصل دشمن اپوزیشن نہیں مہنگائی ہے، اسی لئے وہ پے در پے اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کر رہے ہیں کہ کسی طرح مہنگائی کے عفریت کو قابو کر سکیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈسکہ میں پی ٹی آئی کو دھچکا ایسے وقت میں لگا ہے جب ملکی اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور نفسیاتی طور پر ساری اپوزیشن ہی دبائو کا شکار ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کمزور لمحات میں پی ٹی آئی ڈسکہ میں ن لیگ کے امیدوار کو شکست دے کر یہ ثابت کرتی کہ نہ صرف اپوزیشن قومی سطح پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے بلکہ حلقوں کے اندر بھی کمزور ہو رہی ہے لیکن ڈسکہ کے الیکشن میں پی ٹی آئی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی بلکہ الٹا یہ تاثر ملا کہ اپوزیشن کمزور ترین صورتحال میں بھی پی ٹی آئی پر بھاری ثابت ہوئی ہے۔