بھٹو سے لے کر عمران تک پرانے اور نئے سیاسی کارکنوں کو دیکھتا ہوں تو ان کے اندر سیاست کا رومانس ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ اب تو فیض، جالب اور فراز کا زمانہ بھی نہیں رہا، جن کی شاعری اپنے وقت کے حکمرانوں کو خوف میں مبتلا کر دیتی تھی۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں اب جینے کے کم اور مرنے کے مواقع زیادہ پائے جاتے ہیں۔
لیڈر امید دیتا ہے، حوصلہ بڑھتا ہے اور لوگ دیوانہ وار اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ کوئی اس کی تقریر کا دیوانہ توکوئی تصویر کا۔ تیسری دنیا میں ایسی ہی سیاست رہی ہے۔ اب آپ اسے شخصیت پرستی کا نام دیں یا دیوانہ پن۔ اصل امتحان اس سیاسی کارکن کا ہوتا ہے جو اس سیاسی رومانس سے جڑا ہوتا ہے۔ میں نے ان پچاس سالوں میں بھٹو کا سیاسی رومانس بھی دیکھا ہے اور بے نظیر بھٹو کا بھی۔ آج اس سیاسی کارکن سے بات کرتا ہوں تو مایوسی نظر آتی ہے۔ میاں نواز شریف بھی سیاست میں ایک نیا مزاج لے کر آئے اور پنجاب کو اپنا ہمنوا بنایا۔ لڑنے کی لگن تھی مگر جیل میں لمبا عرصہ رہنے کا حوصلہ کم نظر آیا اور دوبارہ مبینہ ڈیل کر لی۔
عمران خان ایک نئے سیاسی کارکن کو لے کر آئے۔ اسکرین کے ہیرو تو وہ تھے ہی لہٰذا کارکن بھی ان کے ساتھ اسی انداز میں جڑے رہے۔ مگر آج ان میں بھی مایوسی کا عنصر نمایاں ہے جب وہ مہنگائی کے سونامی کو تبدیلی کے سونامی پر حاوی دیکھتے ہیں۔ سیاسی رومانس جو 2013 اور 2018 میں عروج پر تھا، ماند پڑ رہا ہے۔مجھے تو آج بھی 30؍ اکتوبر2011 کا وہ کارکن یاد ہے جو ایک نئی امید کے ساتھ مینار پاکستان پہنچا تھا۔ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر بھٹو سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑکوں تک لے آیا تو عمران ایک نئے ووٹر کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن تک ضرور لے گیا۔ مگر جس طرح ہر عروج کو زوال ہے اسی طرح ہر رومانس کے ساتھ مایوسی جڑی ہے۔
عمران سے بھی وہی غلطی ہوئی جو 70کی دہائی میں بھٹو سے ہوئی۔ بھٹو نے 22 خاندانوں کو چیلنج کیا۔ جاگیردار ہوتے ہوئے ان سے لڑائی مول لی مگر پھر نظریاتی ساتھیوں کو چھوڑ کر جاگیرداروں کو ساتھ ملا لیا۔ بعد میں انہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے مل کر بھٹو مخالف تحریک کی نہ صرف مالی امداد کی بلکہ مارشل لا کے بعد بھٹو کو پھانسی دلوانے میں بھی مدد کی۔ عمران نےسیاست کے دو خاندانوں کو نشانہ بنا کر کرپشن مخالف بیانیہ بنادیا مگر بعد میں انہی دو جماعتوں کے لوگوں کو ساتھ ملا لیا اور نظریاتی کارکن پیچھے رہ گیا۔
2013 کے عام انتخابات میں عمران کو پہلی بڑی سیاسی کامیابی ملی۔ KP میں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی کے نوجوانوں نے فارغ کر دیا۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے 1987میں کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ نے کیا تھا۔ کراچی میں بھی پی ٹی آئی کو 8 لاکھ ووٹ پڑا کیونکہ ایم کیو ایم کا اور بانی کا سیاسی رومانس کم ہو گیا تھا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا سحر برقرار تو رہا مگر پی ٹی آئی بڑی جماعت بن کر ابھری۔ ان الیکشنز سے کچھ ماہ پہلے خان سے بڑی سیاسی غلطی پارٹی کے اندر الیکشن کی ہوگئی جس سے اندرونی اختلافات منظر عام پر آ گئے۔ فارن فنڈنگ کیس بھی اس وقت سامنے آیا اور جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی گروپس بھی کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ پارٹی الیکشن کی ذمہ داری ایک ایماندار جسٹس وجیہہ الدین کے سپرد تھی۔ پارٹی کے بانی رکن حامد خان نے الیکشن کو چیلنج کیا تو پارٹی الیکشن کمیشن نے ترین اور علیم خان کے خلاف فیصلہ دیا۔
ترین صاحب نے اپنے سیاسی تجربہ کا فائدہ اٹھایا۔ 2013 کے الیکشن میں خان صاحب اتنی نمایاں کامیابی کے بعد بھی مایوس تھے۔ ایک روز ترین صاحب نے خان صاحب کے سامنے پنجاب کے الیکشن کا تفصیلی چارٹ رکھ دیا اور بتایا کہ ان کے نظریاتی لوگ کیوں ہار گئے۔ لہٰذا خان کو قائل کیا گیا کہ الیکٹ ایبلز کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ اس فیصلے سے نظریاتی کارکنوں کو مایوسی تو ہوئی مگر وہ خان کے ساتھ کھڑے رہے۔ 2014 میں 126دن کا تاریخی دھرنا ہماری سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی عمل تھا۔ اس دھرنے کے نتیجے میں جو جوڈیشل کمیشن بنا اس کا فیصلہ الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے کپتان کیلئے مایوس کن تھا۔ اتنے میں 2016 میں پانامہ لیک سامنے آئی تو عمران سیاست کو نیا بیانیہ مل گیا۔ میاں صاحب نااہل ہوگئے۔ 2018 کا الیکشن آیا تو خان صاحب اسٹیٹس کو اور اینٹی اسٹیٹس کو کے درمیان کھڑے تھے۔ ان کے اردگرد اب ایسے لوگ جمع ہو چکے تھے جو اپنے اپنے انداز میں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پرویز مشرف کے دور کے مزے لوٹ کر آئے تھے۔ کپتان نے شاید امپائر پر ضرورت سے زیادہ انحصار کر لیا۔ آپ مافیا کیخلاف لڑائی، وفاداریاں، تبدیل کرنے والوں کے ساتھ مل کر نہیں لڑ سکتے۔کپتان نے 2018 کا کمزور اقتدار لینے کی وہی غلطی کی جو 1988میں بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔ ایسے میں بہتر تھا کہ حزبِ اختلاف میں بیٹھا جائے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان دونوں کیسز میں مخالف سمت میاں صاحب ہی کھڑے تھے۔
اب پچھلے ڈھائی سال سے حکومت مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے سہارے کھڑی ہے جو خود کسی کے سہارے کھڑے ہیں۔ کپتان خوش قسمت ہے۔ سامنے ایک ایسی اپوزیشن ہے جو مسلسل غلط شارٹ کھیلنے پر بھی بال کیچ نہیں کر پاتی۔ ویسے بھی یہ سیاست ہے کھیل نہیں۔ یہاں کیچ نہیں کیش پکڑا جاتا ہے اب اور کچھ نہیں ہوا تو ٹیم کے اندر ہی بغاوت ہو گئی۔ اس وقت خان کو جسٹس وجیہہ الدین اور تسنیم نورانی تو یاد آئے ہونگے۔ اب کپتان کے پاس آپشن کیا ہے۔ ترین کو ریلیف یا ترین سے ریلیف۔ ایک بار 20 ایم پی اے نکالے تھے اسکے بعد ہمت نہ ہوئی۔ اب تو بات کھل گئی ہے کہ کس نے سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا۔ ترین کے ساتھ ناشتے سے ڈنر تک رہنے والے کون لوگ ہیں۔ اب حکومت قربان کرنی ہے یا بیانیہ؟ کوئی ایک فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اقتدار یا اقدار۔ اس وقت سیاسی انتشار کے معاملے میں PTI اور PDM ایک صفحہ پر ہیں۔ دونوں طرف ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ شاید کچھ سخت فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ عین ممکن ہے بلوچستان کی طرح پنجاب میں بھی کوئی باپ سامنے لایا جائے۔ باپ رے باپ یہ سیاست۔