آئی ایم ایف معاہدے کے ملکی معیشت پر اثرات

حکومت اور آئی ایم ایف کا معاہدہ جو کورونا کے باعث معطل ہوگیا تھا، اب دوبارہ بحال کردیا گیا ہے اور 25مارچ کو آئی ایم ایف نے حکومت کو 500ملین ڈالر کی قسط بھی ادا کردی ہے لیکن اس معاہدے میں حکومت نے آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف سے 1272ارب روپے اضافی ٹیکسز کی وصولی کا وعدہ کیا ہے جو ہماری جی ڈی پی کا تقریباً 3فیصد بنتا ہے۔

اِسی طرح ایف بی آر کا ٹیکس ہدف رواں مالی سال 2020-21 میں 4963ارب روپے ہےاور 2021-22 ء کے مالی سال میں یہ ہدف 6235 ارب روپے ہوگا جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 26فیصد زیادہ ہے اور کورونا وبا کے دوران اس قدر اضافی ریونیو کی وصولی ٹیکس دہندگان پر بڑا بوجھ ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ حکومت کو رواں مالی سال کے باقی 3مہینوں میں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے 607ارب روپے اور آئندہ بجٹ میں 510ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے لیکن ٹیکس ہدف حاصل نہ کرنے کی صورت میں حکومت کو ترقیاتی منصوبوں (PSDP) میں کٹوتی کرنا پڑے گی جس سے جی ڈی پی گروتھ میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف نے اس سال پاکستان کی معاشی گروتھ 1.5 سے 2فیصد اور مہنگائی یعنی افراطِ زر کی شرح9فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

آئی ایم ایف معاہدے کی رو سے حکومتی آرڈیننس کے تحت اپریل2021 ءسے جون 2023 ء تک بجلی کے نرخوں میں 6مرحلوں میں 884ارب روپے صارفین سے وصول کئے جائیں گے۔ آرڈیننس میں حکومت نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 10فیصد اضافی سرچارج بھی لگایا ہے جس سے بجلی کے نرخوں میں 7فیصد اضافے سے صارفین پر 934ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ اسی طرح بجلی کے ساتھ گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ آئی ایم ایف معاہدے کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کی دیگر شرائط پر عملدرآمد کیلئے صدر پاکستان نے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2021 آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت جولائی 2021 سے 140ارب روپے سالانہ کا 36مختلف شعبوں پر ٹیکس استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے جس میں آئی پی پیز اور این جی اوز کو حاصل ٹیکس استثنیٰ بھی شامل ہیں۔

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو مجموعی طور پر 24.9ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ آئندہ مالی سال 2021-22 میں 23.6ارب ڈالر واپس کرنا ہونگے جن میں پیرس کلب کا واجب الادا 547ملین ڈالر کا قرضہ، نان پیرس کلب کے 873ملین ڈالرکے قرضے، ملٹی لیٹرل اداروں کے 33.74ارب ڈالر کے قرضے، 9.63ارب ڈالرکے کمرشل قرضے، 5.83ارب ڈالر کے پاکستانی بانڈز اور آئی ایم ایف کا RFI ملاکر 7.49ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں۔ نان پیرس کلب کے تحت چین کے 18.2ارب ڈالر، سعودی عرب کے 954ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات کے 2.2ارب ڈالر، کمرشل قرضوں میں چین کے 6.73ارب ڈالر اور دیگر ممالک کے 2.90ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں۔

ان قرضوں میں ادھار تیل کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 115ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو جی ڈی پی کا 90فیصد ہیںاور ورلڈ بینک کے مطابق 2022 تک یہ قرضے جی ڈی پی کے 94فیصد تک پہنچ سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے قرضوں کے حد کے قانون کے مطابق انہیں 60فیصد تک ہونا چاہئے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت نے حال ہی میں 5، 10اور 30سالہ مدت کیلئے اونچی شرح سود پر 2.5ارب ڈالر کے یورو بانڈز کا بھی اجراکیا ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی صورتحال کو 4بڑے خطرات ہیں۔ کورونا کی وبا اور عالمی غیر یقینی معاشی صورتحال سے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ، ایکسپورٹ اور ترسیلاتِ زر متاثر ہوسکتی ہیں۔ دوسرا قرضوں میں ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ، تیسرا FATF کے ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام پر اثر جس سے نئے قرضوں کے حصول اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ پڑسکتی ہے۔ چوتھا تیل کی قیمتوں میں اضافہ جس سے سرمایہ کاروں پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق ملکی سیاسی صورتحال بھی معاشی گروتھ پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق موجودہ بجٹ خسارہ مالی سال کے آخر تک 8.5فیصد کی خطرناک سطح تک پہنچ سکتا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا ہدف 5.5فیصد ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اپٹما اور دیگر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطالبے پر ایکسپورٹرز کو بجلی اور گیس کے رعایتی نرخوں کا جون 2021 تک ایک پیکیج دیا تھا جس سے ہماری ایکسپورٹ بڑھنا شروع ہوئی ہیں لیکن آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد ٹیکسٹائل پالیسی میں مستقبل کیلئے اس رعایتی پیکیج کو منظور کرانا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل پالیسی کا اعلان فی الحال موخر کردیا گیا ہے۔

پاکستان خطے میں سب سے سستا ملک مانا جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں عام آدمی دو وقت کی روٹی سے محروم ہوگیا ہے۔ ہمارے آدھے سے زیادہ ریونیو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ہمارے پاس فنڈز دستیاب نہیں۔ ملکی قرضوں کے باعث 2011میں ہر پاکستانی 46 ہزار روپے، 2013ءمیں 61ہزار روپے اور آج ایک لاکھ 75ہزارروپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہم اپنے موٹر ویز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے ممالک اور عالمی اداروں کو گروی رکھواچکے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمت عملی ترتیب دے جس کے تحت مہنگے شرح سود کے قرضے ترجیحی بنیادوں پر واپس کئے جائیں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں