گزشتہ ہفتے پاکستان کی سڑکوں پر جو مناظر دیکھے وہ افسوناک تھے۔ اتوار کے دن تو لاہور میدانِ جنگ بنا رہا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پولیس کے ہاتھوں تین یا چار مظاہرین کا خون بھی ہوا۔ اُس سے کچھ دن پہلے مظاہرین کی طرف سے تین پولیس اہلکاروں کو جاں بحق کرنے کی خبریں شائع ہوئیں۔
پیر کے روز بھی کافی ٹینشن رہی۔ لاہور واقعہ کے خلاف احتجاج کے طور پر ملک بھر میں تاجر برداری کی طرف سے ہڑتال کی گئی۔ آج بروز منگل، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان بھی کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق حکومت اور پابندی کا شکار تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ حالات مزید خراب نہ ہوں اور مزید کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہوا۔
افسوس کہ گستاخانہ کارروائیاں فرانس میں ہوئیں لیکن پاکستان کی سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں ہم آپس میں دست و گریباں تھے، اپنا ہی خون بہا رہے تھے، اپنے ہی لوگوں کی اور اپنی ہی ریاست کی املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے، جلاؤ گھیراؤ بھی ہوا، شاہرائیں بلاک کی گئیں، دو تین دن ملک کے کئی حصوں کو جام کر دیا گیا تھا۔
ایک طرف احتجاج کرنے والے اور دوسری طرف پولیس اور انتظامیہ۔ دونوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف زیادتی اور ظلم کرنے کے الزامات بھی سامنے آئے۔ فرانسیسی صدر میکرون سمیت گستاخی کے عمل میں شریک افراد باہر بیٹھے ہماری یہ حالت دیکھ کر کیا سوچتے ہوں گے؟ فتنہ وہاں جنم لیتا ہے، چنگاری وہاں سلگائی جاتی ہے اور ہم یہاں ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔
یہ بار بار ہوتا ہے، گستاخی کرنے والوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے۔ حکومت نے مطالبات پورے نہیں کئے، احتجاج کرنے والی جماعت کے رہنما کو بھی گرفتار کیا جو حکومت کی طرف سے غلط اور غیردانشمندانہ اقدام تھا۔ اس کے جواب میں قانونی راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا، پُرامن احتجاج بھی ہو سکتا تھا لیکن راستوں کو بلاک کرنا، ڈنڈوں سوٹوں کے زور پر پُرتشدد ردِعمل ظاہر کرنا اور پورے ملک کو بلاک کرنا جس سے عام لوگوں کو تکلیف ہوئی، نجی و سرکاری املاک کا نقصان بھی ہوا، طرفین کا جانی نقصان بھی ہوا جس کا کسی طور دفاع ممکن نہیں۔
ایک طرف حکومتی دعوے کے مطابق کہ چند پولیس والوں کو تشدد کرکے جاں بحق اور سینکڑوں کو زخمی کیا گیا۔ دوسری طرف احتجاج کرنے والوں کا دعویٰ کہ اُن کے کئی افراد کی جانیں لے لی گئیں اور بہت سوں کو زخمی کیا گیا۔ پولیس پر بھی توڑ پھوڑ اور تشدد کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ بےقصور افراد کو بھی پکڑنے کی اطلاعات ہیں۔
بےشک ہمارا ماضی پُرتشدد احتجاج، جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ کراچی کی ایک جماعت تو کھلے عام قتل و غارت کرتی رہی اور پولیس سمیت ہزاروں افراد کو قتل کیا، پیپلز پارٹی کی طرف سے بےنظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے پر پورے پاکستان میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا اور کھربوں کا نقصان ہوا، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے بھی پُرتشدد احتجاج کے نئے ریکارڈ قائم کیے، حکومت کی طرف سے اب پابندی کا شکار تحریک لبیک نے گزشتہ چند برسوں میں جو کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے اور یہ بھی روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ کس طرح تحریک لبیک کے اُس وقت کی (ن) لیگ کی حکومت کے خلاف احتجاج کو، تحریک انصاف، آج کے وزیر داخلہ شیخ رشید اور اسٹیبلشمنٹ سپورٹ کرتی رہی۔
خیر کون کیا کرتا رہا سب جانتے ہیں لیکن اصول کی بات یہ ہے کہ پُرتشدد احتجاج اور سڑکوں کو ڈنڈوں سوٹوں کے زور پر بلاک کرنے کا عمل ماضی میں بھی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ مذہبی معاملات میں حکمت اور تدبر کے ساتھ فیصلہ سازی کرے۔
اگر حکومت کسی مخصوص گروہ یا طبقہ کی شہ یا سوشل میڈیا کے ذریعے اُکسانے پر اتنے سخت ردِعمل کا فیصلہ کرے گی تو حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ سانحہ لال مسجد سے پہلے بھی ایک گروہ نے مشرف حکومت کو اِسی طرح اُکسایا تھا کہ ’’ہمیں مارو، ہمیں مارو‘‘ اور جب مشرف حکومت نے اُن کے خلاف آپریشن کیا جس میں کئی معصوموں کا خون بھی بہا تو اُسی طبقہ کی طرف سے شور مچا دیا گیا کہ ’’ہمیں حکومت نے مار دیا، ہمیں حکومت نے مار دیا‘‘۔
موجودہ احتجاج کے ابتدائی دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کو طعنہ دیے جا رہے تھے کہ پولیس والوں کو مارا جا رہا ہے، حکومتی رِٹ کہاں ہے؟ شاید اِسی دباؤ میں پہلے بغیر سوچے سمجھے فوری طور پر تحریک لبیک پر پابندی کا اعلان کیا گیا اور پھر لاہور میں اتوار کے روز پولیس آپریشن کر دیا گیا جس سے حالات مزید خراب ہو گئے۔
اگر حکومت کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے، بالخصوص طاقت کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہئے تو کسی بھی سیاسی یا مذہبی تنظیم کا جو بھی مقدمہ ہو، مطالبہ ہو اُس کو منوانے کے لئے اگر سڑکیں بلاک کر دی جائیں گی، ڈنڈوں لاٹھیوں سے لوگوں کو ہراساں کیا جائے گا، جلاؤ گھیراؤ اور خون خرابہ ہوگا تو پھر اس کا سب سے زیادہ نقصان تو اُس مقصد کو ہی ہوگا جس کے لئے احتجاج کیا جا رہا ہے اور جب اسلامی جماعت یا اسلام کے معاملے پر کسی احتجاج میں تشدد اور جلاؤ گھیراؤ شامل ہو جاتا ہے تو پھر اس سے اُن طبقات کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملتا ہے جو پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
جہاں تک حکومت کی طرف سے تحریک لبیک پر پابندی عائد کرنے کے فیصلہ کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو شاید عدالت کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ جس بنیاد پر تحریک لبیک پر پابندی عائد کی گئی اُس کا اطلاق ماضی کے واقعات پر دوسری جماعتوں پر ہوا ہوتا تو کئی پر پابندی لگ چکی ہوتی جن میں سرفہرست ایم کیو ایم ہے۔
تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے 2014کے دھرنے کے دوران جو کچھ کیا اور شیخ رشید جو دھمکیاں دیتے رہے اُس پر اُن کی عوامی مسلم لیگ پر بھی پابندی لگنی چاہئے تھی۔
2018کے انتخابات میں تحریک لبیک مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کی پانچویں بڑی جماعت بن کر اُبھری اور اس کی اسٹریٹ پاور ایک حقیقت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس جماعت کی Mainstreamingکرے تو دوسری طرف پابندی کی شکار اس جماعت کی قیادت کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر اس نے اپنا طریقہ احتجاج نہ بدلا تو سب سے زیادہ نقصان اُس عظیم مقصد کا ہو گا جو اس جماعت کے قیام کا موجب بنا۔