مولانا وحید الدین خان بھی چلے گئے۔پورے عالم اسلام میں اس پائے اور علمی کروفر کے اور عالم تھے ہی کتنے،جو مولانا بھی چلے گئے۔پر قضاء کو کون روکے،ہونی ہو کے رہتی ہے۔اُن کا جانا بھی ٹھہر گیا تھا۔عالمی وبا میں اللہ تعالیٰ نے ان کی عالمِ بالا کو روانگی مقرر کر رکھی تھی۔
مسلمانوں کی علمی اور فکری زبوں حالی کے دور میں ان کا وجود ایک روشن مینار سے کسی طور کم نہ تھا۔
آپ رائج روایت اور درایت سے ہٹ کے عالم تھے۔تقلید سے مُفر اور اندھی پیروی سے احتراز کرتے تھے۔گزشتہ دو صدیوں میں اسلام کی اساسیات اور مبادیات کو اجاگر کرنے میں جن محققین نے بہت زیادہ علمی کوششیں کی ،ان بلند قامت شخصیات میں مولانا کا نامِ نامی بھی جلی حروف میں درج رہے گا۔
سماجی و تمدنی علوم اور ان کا اسلام سے مسلسل ربط،نفسی اور سائینسی علوم اور ان کی اسلامی تعلیمات سے مطابقت میں ان کی تحریریں اپنی جگہہ خود سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
حسن البنا،سید قطب،محمد قطب،ڈاکٹر حمیداللہ اور سید ابوالاعلی مودودی کے بعد اسلامی نثر نگاری کے آخری مصنف تھے۔
جدید دور کے اذھان کی علمی پیاس بجھانے اور عقائد میں شامل ہوتی سائینسی تشکیک کو دور کرنے میں آپ کی تصنیفات نے وہی کام کیا جو ایک دور میں پاکستان میں کیمونزم اور سوشلزم کے زیر اثر اسلام سے دور ہوتے نوجوانوں کے لیے سید مودودی کی تصنیفات نے کیا۔
دارالکفر میں رہتے ہوئے اسلامی طرز سیاست کی اس نوع پہ کاربند تھے،جس کی آواز مولانا ابوالکلام آزاد بلند کرتے رہے۔
مذہبی ھم آہنگی اور رواداری کا سبق دیتے رہے۔
ہندوستان میں رہتے ہوئے وقت اور خطے کے باسیوں کی پرامن زندگیوں کے لیے یہ سبق کچھ ایسا غیر موزوں بھی نہیں تھا۔
اسلامی تعلیمات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے انہوں نے بہت لکھا اور خوب لکھا۔سید جمال الدین افغانی اور مفتی عبدہ کی فکر بھی ان کی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اگرچہ آپ روائتی اسلامی فرقوں اورفقہوں کی زد پہ بھی رہے،حقیقت میں یہ کوئی اچھنبے یا حیرانی کی بات بھی نہیں،اصطلاحات کا نقیب تنقید کا نشانہ بنا ہی کرتا ہے۔
پر مولانا اپنے پیغام پہ تا عمر قائم رہے۔
“عشق کو تقلید سے آزاد کر
دل سے گِریہ آنکھ سے فریاد کر”
مولانا کا اپنا ہی قبیلہ تھا۔آج کے ان دنیا پرست علمائے احتجاج سے ان کا کوئی دور دور تک کا واسطہ نہ تھا،جو مالِ حرام کو شِیرِ مادر سمجھ کے بغیر کوئی ڈکار لئیے ہضم کرتے جارہے ہیں،اور الٰہی چُھوٹ اور مہلت کا ناجائز فائدہ اٹھائے ڈھیٹوں کی طرح جمہور کو بھی غلط راہوں کے مسافر بنائے ہوئے ہیں۔
مولانا اور طرح کے عالم تھے۔
اتر پردیش کا ضلع اعظم گڑھ بھی کمال ِ مردم خیز ضلع ہے۔ علامہ شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہی جیسے عالمِ دین کی جائے پیدائش۔
مولانا وحیدالدین خاں بھی یہیں یکم جنوری انیس سو پچیس کو پیدا ہوئے اور اکیس اپریل دو ہزار اکیس کو مالکِ ارض و سماں سے ملاقات کو چل دیئے۔
چھیانوے سال کی طبعی عمر میں اپنی عمر سے دوگنی تصنیفات دے گئے۔
دو سو سے زائد تصنیفات تالیف کی۔اور ہر بڑے عالمِ دین کی طرح ‘تذکیر القرآن’کے عنوان سے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھی۔
ان کے چلے جانے کے بعد اک خلا ہے،جو اب شاذ ہی پُر ہوسکے۔وہ ایک صاحب ادراک عالم تھے۔
عظمتیں آئے روز پیدا نہیں ہوا کرتیں،اور مولانا وحیدالدین خان ایک عظیم انسان تھے۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں