یہ ایک ایسے عالمی ادارے،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ ہے جس کی پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔یہ رپورٹ بین الاقوامی برادری کو بتاتی ہے کہ ’’اسلامی …جمہوریہ …پاکستان ‘‘ میں روزانہ 20کروڑ لیٹر سے زیادہ ملاوٹ شدہ دودھ فروخت ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ملک کی 87فیصد آبادی کو کینسر کا خطرہ ہے ‘‘۔
پہلی بات کہ یہ رپورٹ انگریزی زبان میں پیش ہوئی جس سے تقریباً ساری دنیا کو ہماری اصل اوقات کا علم ہو چکا ہو گا۔رہی سہی کسر ترجمہ نے پوری کر دی ہو گی کیونکہ یہ رسوا کر دینے والی خبر ہمارے اردو اخبارات میں بھی شائع ہوئی ۔
دوسری بات، ہم چاہیں تو ڈھیٹوں کی طرح اسے اپنے خلاف ’’سازش‘‘ قرار دے کر بھی قرار حاصل کر سکتے ہیں جو ہماری دیرینہ عادت ہے ۔
تیسری بات یہ کہ اندر سے ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ خبر سو فیصد درست ہے کیونکہ یہی ہمارا اصل چہرہ اور اجتماعی کردار ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ جب تک ’’پنجاب فوڈاتھارٹی ‘‘ فوت نہیں ہوئی تھی تو اس کے چھاپوں کے نتیجہ میں لگاتار یہ خبریں شائع ہوتی تھیں کہ دودھ بنانے کی فلاں ’’فیکٹری ‘‘ سے ہزاروں لیٹر کیمیکل زدہ دودھ برآمد کرنے کے بعد ضائع کرکے فیکٹری سربمہر کر دی گئی۔
چوتھی بات یہ کہ اس خباثت کے نتیجہ میں 87فیصد آبادی کینسر کی بھینٹ چڑھ بھی جائے تو خیر ہے کیونکہ یہ تو فی کس آمدنی میں کئی گنا اضافہ کا سبب بنے گی لیکن میرا مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ جو بچے بچیاں یہ کیمیکلز والا دودھ پی کر جوان ہوں گے، کل کلاں ان کی شادیاں بھی ہوں گی تو ظاہر ہے ان کے ہاں اولادیں بھی جنم لیں گی کیونکہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ‘‘
اصل سوال یہ ہے کہ یہ اولادیں جسمانی اور ذہنی طور پر کتنی صحت مند ہوں گی؟ یہ ایک بھیانک سوال ہے جس کا نتیجہ اتنا بھیانک ہو گا جس کا تصور بھی ممکن نہیں لیکن جو احمق اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے وہ اگلی نسل کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
پانچویں بات یہ کہ ’’اسلام کے اس قلعہ ’’اور‘‘ اکلوتی ایٹمی اسلامی طاقت ‘‘ کے بارے یہ خبر دنیا میں جس کسی نے بھی پڑھی ہو گی،اس نے اسلام، پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں کیا سوچا ہوگا، کیسی رائے قائم کی ہو گی اور ایسا کرنے میں وہ کس حد تک حق بجانب ہوگا کہ جو لوگ اپنی ہی اولادوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے ہیں، وہ باقی دنیا کیلئے کیسے ہوں گے۔
چھٹی بات یہ کہ ہمارے چند جینوئن علماء کا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کیلئے طاقت کے بل بوتے پر نشاۃ ثانیہ ممکن نہیں رہ گئی اور اب اس کا ایک ہی رستہ اور طریقہ باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے تبلیغ اور دعوت حق کا رستہ ۔مجھ جیسے کو دن کے نزدیک یہ بھی ممکن نہیں ۔ صرف اور صرف ہمارا کردار، کرتوت، اعمال ہی شاید کام آ سکیں ۔
ذرا تصور کریں پاکستان کے بلند پایہ مبلغ تبلیغی حضرات بیرون ملک جاتے اور دین کامل کا بہترین انداز میں تعارف کراتے ہیں ۔سننے والے اش اش کر اٹھتے ہیں لیکن پھر اس مجمع میں سے صرف چند لوگ اٹھتے اور ’’WHO‘‘کی یہ رپورٹ پڑھ کر سنانے کے بعد ہمارے علماء سے کہتے ہیں کہ اپنی اسی دعوت کی قسم کھا کر اس رپورٹ کو جھٹلاؤتو ہمارے یہ مبلغین کیا کریں گے ؟
فرض کریں اس کے بعد کوئی اور ’’سازشی ‘‘ اٹھ کر بھرے مجمع میں یہ پوچھتا ہے کہ جو کچھ آپ نے بتایا بہت اعلیٰ و عمدہ ہے بشرطیکہ کسی ایک ملک کا نام بتائیں جہاں یہ سب کچھ پریکٹس بھی ہو رہا ہو تو مجھے کوئی سمجھائے ہمارے مبلغین و صالحین اس بات کا کیا جواب دیں گے ۔
باتیں تو اور بہت سی ہیں لیکن وہ ایسی ہوں گی جن کا بتنگڑ بنانا بہت آسان ہو گا، اس لئے میں بھونڈوں کے کھکھر کو چھیڑے بغیر چند بے ضرر سی باتوں پر ہی اکتفا کر رہا ہوں کیونکہ جس کا ذہن زندہ اور ضمیر مردہ نہیں ہو گا وہ ضرور ان حقائق اور ان کے نتائج پر غور کرے گا۔
آخری بات یہ کہ اپنا وہ بچپن اور لڑکپن یاد آتا ہے جب یہ بات زبان زد عام تھی کہ دودھ تو ﷲ کا نور ہے جس میں پانی کی ملاوٹ کرنے والا بھی جہنمی ہوتا ہے ۔آج ہم نے ملاوٹ بند کرکے پورے کا پورا دودھ ہی کیمیکلز سے بنانا شروع کر دیا ، جانوروں کو انجیکشن لگانا شروع کر دیئے کیونکہ یہاں ’’ٹیلنٹ‘‘ کی کوئی کمی نہیں ۔