آج کے کالم میں دیگر اہم موضوعات سے پہلےبچوں پر تشدد جیسے اہم مسئلہ کا ذکر بہت ضروری ہے ۔ ہم کیسے لوگ ہیں جو کسی کے آنگن کے پھولوں کو بہلا پھسلا کر ساتھ لے جاتے ہیں، بہ الفاظ دیگر اغوا کر لیتے ہیں۔ پھر اس معصوم کو ہوس شیطانی کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر اس کو قتل کر دیتے ہیں۔
یہ ظالم ترین اور وحشی کسی ملک سے آ کر یہ سب نہیں کرتے،یہ شیطان اسی ملک کے اسی شہر و قصبہ کے رہنے والے ہوتے ہیں۔ جہاں بھی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے ،یقین کیجئے مقامی پولیس کی پورے خلوص کے ساتھ انتھک کوشش ہوتی ہےکہ ملوث انسان بھیڑیئے کو گرفتار کیا جائے۔
پولیس والے بھی تو انسان ہیں ان کے بھی بچے ہوتے ہیں۔ ان کے بھی دل ایسے ہی دھڑکتے اور دکھی ہوتے ہیں جیسا کہ کسی عام انسان کا ہوتا ہے۔ عدالتیں بھی انصاف و قانون کے تقاضے پورے کر کے ایسے شیطانوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں دیر نہیں لگاتیں، شاید اب تک رونما ہونے والے اور رپورٹ ہونے والے ایسے ظالمانہ واقعات میں ایک بھی انسانی بھیڑیا نہ تو گرفتاری سے بچ سکا ہے اور نہ ہی قرار واقعی سزا سے بچ سکا ۔
ایک اور خطرناک رجحان جس میں اضافہ ہو رہا ہے وہ والدین خاص طور پر والد کی طرف سے اپنے ہی معصوم بچوں پر تشددہے۔ گزشتہ دنوں میں راولپنڈی میں لگاتار ایسے دوواقعات سامنے آئے ہیں جن میں ایک واقعہ میں سوتیلے باپ نے اپنے بیٹے کو محض اس لیے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس معصوم نے گھر میں لائے ہوئے پھل کھائےتھے۔
دوسرے واقعہ میں سگے باپ نے معصوم بچے کو ناشتہ کرنے یا نہ کرنے پر وحشیانہ تشدد کیا۔ ان دونوں واقعات کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔ یہ ویڈیوز وائرل ہوئیں تو سی پی او راولپنڈی محمد احسن یونس نے فوری کارروائی کا حکم دیا ،متعلقہ افسران اور ان کی ٹیموں نے نہایت جانفشانی سے کوششیں کیں اوردونوں واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کیا۔
اس پر سی پی او احسن یونس اور متعلقہ افسران و اہلکاروں کو ترقی و انعامات دینے چاہئیں۔ پولیس کی ایسی کارکردگی جس صوبہ اور جس علاقے میں ہو قابل ستائش و تحسین ہے۔ حکومت اور اراکین پارلیمنٹ کو چاہیے اور یہ ان کا فرض بھی ہے کہ بچوں پر بےجا گھریلو تشدد کو روکنے کیلئے فوری اور سخت قوانین بنا کر نافذ کریں۔ اس خطرناک اور سنگین رجحان کا سدباب ہر صورت ضروری ہے۔
ترین گروپ اور وزیر اعظم کے درمیان آخر ملاقات ہو ہی گئی لیکن جیسا کہ گزشتہ ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اس کا وہ نتیجہ برآمد ہونے کا امکان نظر نہیں آتا جو ترین گروپ بہ مشاورت جہانگیر ترین چاہتا ہے۔ بیانات جو بھی ہوں لیکن واقفان حال کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ان کی بھی سنی لیکن اپنی بھی سنائی۔
شہزاد اکبر کو ترین معاملہ میں سائیڈ لائن کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ بلکہ ترین گروپ کو جہانگیر ترین کو یہ مشورہ دینا چاہیے تھا کہ وہ ڈٹ کر کھڑے ہوں اور قانون کا راستہ اختیار کریں۔ معلوم نہیں کہ ہر کوئی کیوں شہزاد اکبر کے پیچھے پڑا ہے۔ سمجھ میں تو آتا ہےکہ شہزاد اکبر احتساب کے معاملات دیکھتے ہیں لیکن اس معاملہ میں ان کا کیا ذاتی مفاد ہے۔یہ ابھی تک معلوم ہو سکا نہ کوئی بتا سکا۔
شہزاد اکبر جتنے مرضی الزامات لگائیں لیکن وہ کسی بے گناہ کو کسی صورت گناہ گار ثابت نہیں کر سکتے۔ عدالتیں شہزاد اکبر یا کسی اور حتیٰ کہ وزیر اعظم کو بھی نہیں دیکھتیں وہ صرف قانون کو دیکھتی ہیں اور انصاف پر مبنی فیصلے کرتی ہیں۔
جن کی کئی مثالیں موجود ہیں اور یہ بات بیرسٹر شہزاد اکبر بھی جانتے ہیں پھر ان ہی کو مورد الزام ٹھہرانا سمجھ سے بالا ترہے۔ سب کوحالات کی سنگینی سمجھنی چاہیے ۔اب فیصلوں کا وقت دور نہیں ہے۔
مولانا فضل الر حمٰن اور مریم نواز کے کشمیر پر بیانات اورخدشات نہایت اہم ہیں کہ مریم نواز نے کشمیر مسئلہ پر کھچڑی پکنے کا بیان دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ابھی سیاسی طور پر نابالغ ہیں۔ مسئلہ کشمیر صرف پاک بھارت تنازع نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی ایشو ہے۔ پاکستان نے ہر فورم پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے آواز اٹھائی ہے۔اور اب پہلے سے زیادہ متحرک ہے۔
مسئلہ کشمیر پر اسٹے آرڈر نہیں لیا جا سکتا نہ ہی کوئی کشمیر کا سودا کرنے یا اس پر لچک دکھانے کا سوچ بھی سکتاہے۔ کشمیری لاوارث ہیں نہ بھیڑ بکریاں ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اپنی شہ رگ کو وہی کاٹ سکتا ہے جس نے خودکشی جیسا حرام فعل کرنا ہو۔
پاکستان بڑی جرات کے ساتھ کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہےاور دنیا کے ہر فورم پرکشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک کہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں ملتا۔ پاکستان نے برملا یہ واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں۔
پھر منفی پروپیگنڈہ کرنے کا کیا مقصد ہے۔یہ مذاق نہیں سنگین مسئلہ ہے مولانا فضل الرحمٰن جیسے زیرک سیاست دان سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ پاکستان کو دشمن کے مقابلے میں کمزور ثابت کرنے کی ناکام کوشش کریں گے۔ گزشتہ روز ایک بیان میں انہوں نے نہ صرف کشمیر کا سودا کرنے کا ذکر کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ یہ جھوٹ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ متنازع معاملات پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے منت ترلے کر رہا ہے کیونکہ پاکستان تو چوبیس گھنٹے تک جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے۔ خدا کی پنا ہ! تعجب ہے کہ مولانا کو حقیقت حال کا علم نہیں ہے تو وہ سیاست کیسے کرتے ہیں۔ان کو بھارتی میڈیا کا نہیں پتہ نہ ہی بھارتی جنرلز کے بیانات کا علم ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو وہ سب سے بے خبر سیاست دان ہیں ۔ پاکستان کی طاقت کا پتہ کرنا ہو تو بھارتی جنرلز سے پوچھ لیں ،ہم کچھ نہیں کہتے۔البتہ مولانا کو معذرت کرنی چاہیے ۔