شوکت ترین سے شوکت ترین تک

تبدیلی سرکار کا چمتکار دیکھیں ،ایک طرف مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کو ان چوروں اور ڈاکوؤں کی جماعتیں قرار دیا جاتا ہے جو ملک لوٹ کر کھاگئے ۔ ہر ناکامی کی ذمہ دار ی سابقہ حکومتوں پر ڈالی جاتی ہے اور دوسری طرف تمام کلیدی عہدوں کیلئے پچھلی بدعنوان حکومتوں میں اہم کردار ادا کرنے والے افراد کو چن لیا جاتا ہے۔

2008 کے عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو بینکار شوکت ترین کوخزانے کی وزارت سونپ دی۔23فروری 2010 کو شوکت ترین مستعفی ہوگئے تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک اور ٹیکنو کریٹ حفیظ شیخ کی خدمات مستعار لے لیں ۔

تحریک انصاف کی حکومت نے ابتدائی طور پر وزارت خزانہ اسد عمر کے حوالے کردی مگر پھر سابقہ کرپٹ حکومتوں کے آزمودہ ،منجھے ہوئے اور تجربہ کار افراد کی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کا فیصلہ کیا۔نقالی کا الزام نہ لگے اس ڈر سے ترتیب بدل دی گئی یعنی پیپلز پارٹی پہلے شوکت ترین اور پھر عبدالحفیظ شیخ کو لائی تھی تو تبدیلی سرکار نے معاشی اننگز کا آغاز عبدالحفیظ شیخ سے کیا اور ان کے کلین بولڈ ہونے کے بعد شوکت ترین کے ہاتھ میں بیٹ تھما دیا گیا ہے۔

اس سے بڑی انہونی اور کیا ہوگی کہ پیپلز پارٹی کے شوکت ترین اور عبدالحفیظ شیخ نے جس معیشت کا بیڑا غرق کیا تھا ،اسے اب تحریک انصاف کے عبدالحفیظ شیخ اور شوکت ترین کی کاوشوں سے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے جن دو ٹیکنوکریٹس نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے ملک کو قرضوں کے جال میں جکڑ دیا ،اب وہی ٹیکنوکریٹس تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے یہ زنجیریں توڑ کر قوم کو آزاد کروانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔تبدیلی سرکار کے ہاں ایسی انہونیاں تو بہت ہیں مگر دیگر مثالیں زیر بحث لا کر اُلجھانے کے بجائے سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلے تو شوکت ترین صاحب کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔اولیاکے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے شوکت ترین نے فوجی ڈاکٹر جمشید ترین کے ہاں جنم لیا۔

آرمی کنٹونمنٹ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد بینکاری کی طرف راغب ہوگئے ۔سٹی بینک میں 22سال ملازمت کرنے کے بعد کیریئر کی بلندی تک جا پہنچے اور انہیں تھائی لینڈ میں کنٹری مینیجر تعینات کردیا گیا۔

نوازشریف کے دوسرے دورِحکومت میں جب HBL اور UBLمکمل طور پر سرکاری بینک ہوا کرتے تھے تو انہیں خسارے کا سامنا رہتا۔نوازشریف نے ان بینکوں کی حالت سُدھارنے کے لئےقابل افراد کی تلاش شروع کی تو ان کی نظر انتخاب زبیر سومرو اور شوکت ترین پر آکر رُک گئی۔شوکت ترین کو HBL،زبیر سومرو کو UBLجبکہ نیشنل بینک کو محمد میاں سومرو کے حوالے کردیا گیا۔ان سب نے یہ ذمہ داری اچھے طریقے سے نبھائی ۔

اس دوران جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔شوکت ترین نے 2000میں HBLکو خداحافظ کہا اور یونین بینک کے صدر بن گئےاسے بعد اسٹینڈر ڈ چارٹرڈ بینک نے خرید لیا۔

اس دوران شوکت ترین دو بارکراچی اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین منتخب ہوئے۔مارچ 2008میں شوکت ترین نے دیگر کاروباری دوستوں سے مل کر سعودی پاک کمرشل بینک خریدلیا۔ملتانی سیاستدان یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنے وسیب سے وزیر خزانہ لانے کا فیصلہ کیا۔

شوکت ترین کو سندھ سے سینیٹر منتخب کروایا گیا۔جب الیکشن کمیشن نے منتخب عوامی نمائندوں کے اثاثہ جات کی تفصیل جاری کی تو معلوم ہوا کہ شوکت ترین ایوان میں امیر ترین سینیٹر ہیں جن کے پاس 3.80بلین کے اثاثہ جات ہیں اور انہوں نے 3.066بلین کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔

انہوں نے وزارت خزانہ سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے بات چیت کی اور 11.2بلین ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ 2008-09کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی شرح نمو یعنی جی ڈی پی 2فیصد رہی ،مینوفیکچرنگ کے شعبے میں شرح نمو منفی 3.3فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ لارج اسکیل مینو فیکچرنگ کی شرح نمو میں 75فیصد کمی دیکھی گئی۔

غیر ملکی قرضوں نے وینٹی لیٹر پہ پڑی معیشت کو مصنوعی طور پرکچھ سہارا تو دیا مگر اس دور میں وضع کی گئی معاشی پالیسیوں کے دوررس نتائج حاصل ہوئے یا نہیں ،اس حوالے سے تو معاشی ماہرین ہی کوئی رائے دے سکتے ہیں۔البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزارت خزانہ چلی یا نہیں ،شوکت ترین کا کاروبار چل نکلا ۔

انہوں نے دوستوں سے مل کرجو سعودی پاک کمرشل بینک خریدا تھا اسے یکم جون2009کو ’’سلک بینک ‘‘کے نام سے ری برانڈ کرکے دوبارہ لانچ کردیا گیا۔ان کا یہ بینک خوب پھلا پھولا ۔اگرچہ پہلے دن سے ہی Conflict of Interestکا معاملہ درپیش تھا ،وہ بطور وزیر خزانہ اپنا بینک چلا رہے تھے لیکن انہوں نے 23 فروری2010 ء کو بتایا کہ انہیں اپنے بینک کے لئے مارکیٹ سے Equityدرکار ہے اور وہ یہ کام بطور وزیر خزانہ نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنا واضح طور پر Conflict Of Interestکے زمرے میں آتا ہے۔

پیپلز پارٹی نے شوکت ترین کے بعد وزارت خزانہ چلانے کےلئے عبدالحفیظ شیخ کی خدمات حاصل کیں اور 2010کا بجٹ وزیر مملکت حنا ربانی کھر کوپیش کرنا پڑا کیونکہ اس وقت تک عبدالحفیظ شیخ مشیر خزانہ تھے۔

اس بجٹ میں ایس ایم ایس کرنے پر بھی 20پیسے ٹیکس عائد کردیا گیا لیکن ان ظالمانہ ٹیکسوں کے باوجود معاشی حالات بہتر نہ ہوسکے۔اب 11سال بعدشوکت ترین ایک بار پھر وزیر خزانہ کے طور پر واپس آچکے ہیں۔سلک بینک ابھی تک ان کی ملکیت ہے۔

ایک بار پھران کے بینک کومالی مشکلات کا سامنا ہے۔پہلے فوجی فاؤنڈیشن نے اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی اور اب HBLسے بات چل رہی ہے۔اگر ڈیل ہوئی تو گورنر اسٹیٹ بینک سے منظور ی لینا ہوگی۔اس سارے عمل میں ایک بار پھر Conflict Of Interestکا چیلنج درپیش ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ شیخ شوکت ترین کا ادھورا چھوڑا ہوا IMFپروگرام مکمل نہ کرسکے ،کیا شوکت ترین عبدالحفیظ شیخ کاحاصل کیا گیا IMFپیکیج چلا پائیں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں