پنجاب کا سیاسی معرکہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ فیصلہ بہرحال انہوں نے ہی کرنا ہے کہ بات کس سے کی جائے ڈوریاں ہلانے والوں سے یا جو ڈوریاں ہل رہی ہیں ان سے۔
سیاسی طور پر شاید آج عمران خان صاحب کو جتنی ماضی کے قابل اعتماد ساتھی جہانگیر خان ترین کی ضرورت ہے وہ 2018 میں بھی نہیں تھی حالانکہ اس وقت بھی ترین نے الیکشن سے لے کر حکومت بنوانے تک اہم کردار ادا کیاتھا، KPکے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ مل کر۔ مگر اس وقت اندرون خانہ خٹک صاحب کی ہمدردیاں ترین کے ساتھ ہیں کیونکہ ان کے ساتھ بھی وزیر اعظم نے بہت اچھا نہیں کیا۔
2018 میں عمران خان اور پی ٹی آئی کو بڑی تعداد میں ان لوگوں نے ووٹ دیا جو ایک تیسرے آپشن کو آزمانا چاہتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے کرکٹ ہیرو، سوشل ورکر، اور اپنی ایمانداری کے حوالے سے مشہور نئے سیاسی رہنما کو دیکھنا چاہتے تھے ۔ مگر 2023 کے الیکشن میں وہ اس حکومت کی کارکردگی، گورننس اور اپنے منشور پر عمل درآمد یا عدم عمل درآمد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے۔
اگر 2018 میں 2016 کے پانامہ لیک، میاں نواز شریف کی نااہلی کے باوجود پنجاب کم از کم مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑا رہا تو 2021 میں ضمنی الیکشن میں مسلسل کامیابیوں نے مسلم لیگ میں ایک نئی امید پیدا کردی ہے۔ مگر پی ٹی آئی آج بھی ایک بڑی حریف ہے۔ ایسے موقع پر عمران خان کے لئے ترین سے لڑائی کو بڑھانا خاصا مشکل فیصلہ ہوگا۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ اگر دوبارہ ’’ملاپ‘‘ ہو بھی جاتا ہے تو پلڑا بہرحال ترین صاحب کا ہی بھاری رہے گا۔
اس وقت بھی ترین گروپ کے ساتھ ایک واضح اور بڑا گروپ ہے اور بس ’’ڈوریاں‘‘ ہلانے والوں کے اشارے کا انتظار ہے۔ کپتان مضبوط اعصاب کے مالک ضرور ہیں مگر بڑا فیصلہ نہیں کر پارہے۔کچھ بااثر کاروباری لوگ جن کے وزیر اعظم اور ترین صاحب سے اچھے تعلقات ہیں ان کا جھکائو بھی اس وقت ترین کی طرف ہے۔ ایک ایسے ہی بزنس مین نے تصدیق کی ہے کہ ان کی دونوں سے گفتگو ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک بڑا انکشاف یہ کیا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ معاملہ محض ترین گروپ کا نہیں ہے بلکہ ڈوریاں ہلانے والوں سے ہے جس میں بعض معاملات میں خان کی ’’ضد‘‘ آڑے آرہی ہے۔
2013میں عمران خان کو پورا یقین تھاکہ وہ الیکشن جیت رہے ہیں۔ انہوں نے تو ایک ٹی وی ٹاک شو میں اینکر کو اپنے دستخط سے لکھ کر دے دیا، ’’لینڈ سلائیڈوکٹری‘‘۔ نتیجہ آیا تو برا نہیں تھا۔ KPمیں حکومت بن گئی اور پی ٹی آئی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ مگر خان تو حکومت چاہتے تھے۔ دھاندلی کا الزام بھی لگایا اور 124دن کا دھرنا بھی دیا۔ میاں صاحب کے لئے حکومت کرنا مشکل ہوگیا۔ مگر 2018کے الیکشن ہوئے تو پنجاب میں مسلم لیگ پھر بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ مرکز اور پنجاب میں حکومتیں کیسے بنیں اس وقت پتا چلے گا جب ترین صاحب اپنا منہ کھولیں گے۔
ایک مزے کا واقعہ جو ایک زمانے میں عمران خان کے ترین صاحب پر اعتماد کا مظہر ہے۔ 2013 کے الیکشن کے بعد 6نتائج کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لئے ان دو بڑوں کی بیٹھک ہوئی جس میں ہمارے مرحوم دوست نعیم الحق بھی موجود تھے۔ پوری بریفنگ کے بعد جس میں ترین صاحب نے پنجاب الیکشن چارٹ خان کے سامنے رکھا اور مارکر کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی کہ کون سی نشست ہم کس وجہ سے جیتے اور کہاں نمبر2، 3، اور4پر آئے اور ساتھ میں یہ جملہ بھی سنا ہے کہا ’’اگر الیکشن جیتنا ہے تو اسٹیٹس کو کو ساتھ رکھ کرجیتا جاسکتا ہے بعد میں اسٹیٹس کو آپ توڑتے رہیں‘‘۔
خان نے ہامی بھری تو بڑی تعداد میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے پارٹی میں آگئے۔ جو آئے ان میں سے بیشتر آج ترین گروپ کا حصہ ہیں۔ تو آپ جان گئے ہوں گے کہ کھیل کیا تھا۔ نہیں سمجھے تو شاہ محمود صاحب سے پوچھ لیں۔مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اپنی جگہ قائم ہے اور اب اگر ترین گروپ سے بات نہ بن سکی تو پھر ’’کپتان کے پاس‘‘ کیا ہے؟ یہ بات تو اس وقت پنجاب میں سیاسی طور پر متحرک فواد چوہدری بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کے خان صاحب کے فیصلے سے کتنا نقصان ہوا ہے۔ مگر کپتان بھی کیا کرتا۔ ترین صاحب ان کی پہلی چوائس تھے، نااہل ہوگئے۔
اب بجٹ تو پاس ہو ہی جائے گا ہلکی پھلکی بارش کے بعد مگر بادل اب بھی گہرے ہیں اور کسی وقت بھی گرج چمک کے ساتھ برس سکتے ہیں۔ان تین سال میں پی ٹی آئی کی ڈوریوں میں بندھے کوئی اتحادی بھی خوش نہیں اور نہ ہی پارٹی کے اندر مکمل اتفاق رائے ہے۔ اثرات ضمنی الیکشن میں دیکھ لیں۔ ایسے میں انقلاب نہیں آتا۔
اسٹیٹس کو کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے فیصلہ آپ نے اور ترین صاحب نے ہی کیا تھا۔ پہلے بھی لکھا تھا وفاداریاں تبدیل کرنے والے کسی کے وفادار نہیں ہوتے۔ اس وقت آپ نے کٹھن نہیں آسان راستہ اختیار کیا۔دو بڑے اتحادی مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم (پاکستان) ڈوریوں سے بندھے ہیں۔ متحدہ کی ڈوریاں تو 22؍اگست 2016 سے ہلانے والوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ذرا ہل جل ہوتی ہے تو رشتہ لندن سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بلوچستان کا تو حال ہی نرالہ ہے ’’باپ رے باپ‘‘۔ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
اب ان حالات میں ’’کپتان‘‘ نے شاید اپنے 25سالہ سیاسی کیرئیر کا مشکل ترین فیصلہ کرنا ہے۔ مشکل راستہ ’’ڈکٹیشن‘‘ نہ لینے کا ہے اور آسان راستہ انہیں 2023 تک لے جائے مگر کمزور احتساب کے بیانیہ کے ساتھ۔ جناب علی ظفر کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی ترین گروپ کا اسے مان لینے کا اعلان کچھ بنیادی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ بظاہر ’’شوگر مافیا‘‘ کے لئے کوئی بری خبر نہیں۔ رہ گئی بات عوام کی تو انہیں خوبصورت تقاریر سے منالیں گے۔ اپوزیشن کی ڈوریں تو پہلے ہی ہلی ہوئی ہیں چوہدری نثار صاحب کیا تبدیلی لاسکتے ہیں مگر قانون کے تحت کوئی گروپ تو جوائن کرنا پڑے گا۔