رواں مالی سال 2020-21کے اختتام پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اسٹیٹ بینک، وزیر خزانہ اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے ملکی معاشی کارکردگی کے مختلف اشاریے اور جی ڈی پی گروتھ کے تخمینے پیش کئے ہیں۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے 2020-21میں پاکستان کی جی ڈی پی بالترتیب 1.3سے 1.5 فیصد تک رہنےکی پیش گوئی کی تھی جبکہ اسٹیٹ بینک نے 3فیصد اوراب حکومت نے 3.94فیصد گروتھ کا دعویٰ کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق خدمات کے شعبے میں اس سال 4.43فیصد، صنعتی شعبے میں 3.57فیصد اور زرعی شعبے میں گزشتہ سال کے 3.31فیصد کے مقابلے میں 2.77فیصد گروتھ متوقع ہے۔
زرعی شعبے میں گروتھ میں کمی کی خاص وجہ کاٹن پیداوار میں 22.8 فیصد کمی ہے جو 13ملین بیلز سے کم ہوکر صرف 6.5ملین بیلز ہوئی ہے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کاٹن کی پیداوار کا ہدف10.5 ملین بیلز رکھا ہے۔صنعتی شعبے میں اس سال بڑے درجے کی صنعتوں (LSM) نے 9.29فیصد گروتھ حاصل کی جس میں ٹیکسٹائل 5.9فیصد، فارماسیوٹیکل 12.57فیصد، آٹوموبائل 20.38فیصد اور کنسٹرکشن سیکٹر کی 5.34فیصد گروتھ قابلِ ذکر ہے۔
پاکستان کی فی کس آمدنی گزشتہ سال کے1361ڈالر سے بڑھ کر 1543ڈالر سالانہ ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود مہنگائی یعنی افراط زر میں 11فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس کو حکومت نے آئندہ سال 8فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین تیز ترین معاشی گروتھ کیلئے کم شرح سود، مستحکم روپے، بجلی کے نرخ مسابقتی اور ڈیوٹی فری خام مال کی امپورٹ کی پالیسی سے 5سے 7فیصد ایکسپورٹ گروتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ مالی سال 2019-20میں کورونا کی وجہ سے ہماری جی ڈی پی گروتھ منفی 0.47فیصد تھی لہٰذااس سال کی 3.94فیصد گروتھ کا گزشتہ سال کی تاریخی کم ترین گروتھ سے مقابلہ کرنا بے معنی ہوگا۔
2015 سے 2020 کے دوران ملکی ایکسپورٹس کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ 5برسوں میں ہماری ایکسپورٹس 21ارب ڈالر سے 23ارب ڈالر کے درمیان رہیں۔ حکومت نے اس سال ایکسپورٹس کا ہدف 25.2ارب ڈالر اور آئندہ مالی سال کے لئے 26.8 ارب ڈالر رکھا ہے جبکہ اس سال بیرون ملک سے ترسیلات زر کا ہدف 29ارب ڈالر اور آئندہ سال 33ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے آئندہ بجٹ 2021-22کیلئے بجٹ خسارہ 6 فیصد رکھا ہے جو تقریباً 3154 ارب روپے بنتا ہے۔ آئندہ بجٹ میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 3105ارب روپے اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے 900ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 0.7فیصد یعنی 2.3ارب ڈالر رکھا گیا ہے ۔
آئی ایم ایف نے اس سال 4963ارب روپے کے ریونیو ہدف میں 26فیصد اضافے سے آئندہ سال کیلئے 6233ارب روپے کا ہدف تجویز کیا ہے جو غیر حقیقی ہے۔ میں ایف بی آر کے چیئرمین عاصم احمد، ممبر ان لینڈ ریونیو ڈاکٹر محمد اشفاق احمد اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار رواں مالی سا ل کے 11مہینوں میں 18فیصد گروتھ کے ساتھ 4143ارب روپے کی ٹیکس وصولی کی۔
گزشتہ 3برسوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہوا ہے جو 31مارچ 2021تک 116ارب ڈالر تک پہنچ گئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 6.38ارب ڈالر زیادہ ہیں جس میں صرف گزشتہ 9ماہ میں 3.2ارب ڈالر کے نئے قرضے لئے گئےہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے 3سالہ دور میں 19.63ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کئے لیکن پرانے قرضوں کی واپسی کیلئے نئے قرضے لینا لمحہ فکریہ ہے۔ قرضوں کی حد کے قانون FRDLA کے مطابق حکومت جی ڈی پی کا زیادہ سے زیادہ 60فیصد قرضہ لے سکتی ہے لیکن مارچ 2020 میں ہمارے قومی قرضے جی ڈی پی کا 87فیصد سے زیادہ ہوچکے ہیں۔
امریکن بزنس کونسل نے غیر ملکی پاکستانی نژاد امریکیوں کو پاکستان میں رئیل اسٹیٹ، کنسٹرکشن سیکٹر، سیاحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سول ایوی ایشن اور ’’روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹ‘‘ میں سرمایہ کاری کیلئے بجٹ کی تجاویز دی ہیں جس میں اُنہیں نان ریزیڈنٹ پاکستانی کی حیثیت سے ملک میں رہنے کی مدت 3مہینے سے بڑھاکر 9مہینے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
لاہور چیمبرز آف کامرس نے ایکسپورٹس کے فروغ کیلئے انجینئرنگ، فارماسیوٹیکل، چاول اور حلال گوشت کو ایکسپورٹس سیکٹرز کی طرح خصوصی مراعات دینے اور پیداواری لاگت میں کمی کیلئے سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس، ٹرن اوور ٹیکس میں کمی کی سفارش کی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں 6مرحلوں میں 7فیصد اضافے 2021-22میں 934ارب روپے اضافی وصول کرنا ہیں جو صارفین پر ناقابلِ برداشت بوجھ ثابت ہوگا۔
حکومت کو 2400ارب روپے کے ریکارڈ گردشی قرضوں کی ادائیگی اور خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے اور واپڈا جن کی نجکاری کے بجائے گزشتہ 2برسوں میں 1000ارب روپے ان اداروں میں جھونک دیے گئے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاجائے گا اور گردشی قرضوں کو بتدریج کم کیا جائے گا جبکہ مہنگائی کے پیش نظر آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ متوقع ہے تاہم آئی ایم ایف معاہدے کی باقی شرائط پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اِن حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والا بجٹ کس حد تک عوام اور بزنس کمیونٹی کی وابستہ اُمیدوں پر پورا اترے گا۔