معیشت اور حکومتی دعوے

مزے میں ہیں، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

حقیقت یہ ہے کہ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر جاری حکومتی پروپیگنڈے اور زمینی حقائق میں رتی بھر بھی موافقت ہوتی تو ہم بھی سکھ کا سانس لیتے لیکن افسوس کہ زمینی حقائق اور حکومتی دعوؤں میں اتنا فرق ہے جتنا کہ عمران خان کے حکمران بننے سے قبل کے بیانات اور آج کے عمل میں ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی ٹیم میں اقتصادی سقراط اسد عمر کو سمجھا جاتا تھا۔ حکومت میں آنے سے قبل عمران نے لاکھوں گھر بنانے، کروڑوں نوکریاں دینے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خودکشی کو ترجیح دینے جیسے جو ناقابلِ عمل دعوے کئے تھے، وہ سب اسد عمر کے دعوؤں کی بنیاد پر کئے تھے۔

ہم جیسے طالب علم تو برسوں سے عرض کرتے رہے کہ اسد عمر ماہر معیشت نہیں بلکہ مارکیٹنگ کے ماہر ہیں اور مارکیٹنگ بھی صرف اپنی ذات کی کرسکتے ہیں لیکن تب چونکہ اُنہیں مقتدرقوتوں کے نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی مخصوص صلاحیتوں کی بنیاد پر عمران خان کو اپنے سحر میں مبتلاکررکھا تھا اور وہ انہیں دنیا کا عظیم ماہر معیشت سمجھ رہے تھے۔

تاہم اقتدار میں آنے کے بعد بطور وزیر خزانہ اسد عمر نے ملکی معیشت کا بیڑہ اس قدر جلدی غرق کیا کہ خود عمران خان کو انہیں بڑوں کے کہنے پر ہٹانا پڑا۔ اب اگر واقعی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال کی معاشی پالیسیاں کامیاب تھیں تو پھر اسد عمر کو ہٹانا نہیں چاہئے تھا لیکن انہیں ہٹا کر عمران خان نے عملاً تسلیم کیا کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت تباہ ہورہی تھی۔

اسد عمر کے بعد عمران خان، آصف علی زرداری کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو لے آئے۔ حفیظ شیخ کے بارے میں خود عمران خان ماضی میں ہمیں بتاچکے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کی خاطر معیشت تباہ کرتے ہیں۔ جب حفیظ شیخ زرداری کے دور میں وزیر تھے تو شیریں مزاری سے لے کر عمران خان تک، پی ٹی آئی کے سب رہنما ان کے خلاف یک زبان تھے۔

ہم جیسے طالب علموں کی تب بھی ان کے بارے میں یہی رائے تھی اور اب بھی یہی ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے دکھ درد کو نہیں سمجھتے۔ بہر حال سال ڈیڑھ سال وہ پاکستانی معیشت سے کھیلے اور پھر عمران خان نے انہیں وزارت سے ہٹا کر اس رائے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ حفیظ شیخ معیشت کو تباہ تو کرسکتے ہیں، بحال نہیں کرسکتے۔ حفیظ شیخ کو ہٹا کر عمران خان نے عمل کے ذریعے ثابت کردیا کہ شیخ صاحب کی معاشی پالیسیاں ناکام اور نقصان دہ تھیں۔

حفیظ شیخ کو ہٹا کر عمران خان زرداری صاحب کے دور کے ایک اور وزیر خزانہ شوکت ترین کو لے آئے۔ چارج سنبھالنے کے بعد انہوں نے اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیا اور پھر ایک پریس کانفرنس کے دوران قوم کو بتایا کہ اس حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی کوئی سمت نہیں۔ معیشت کا ستیاناس ہوچکا ہے اور یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ انتہائی غلط معاہدے کئے گئے۔

تاہم اب جب بجٹ کا وقت قریب آیا تو اچانک وزیراعظم اور ان کے ترجمانوں نے جی ڈی پی گروتھ میں توقع کے برعکس اضافے کی نوید سنا کر دعوے شروع کر دیے ہیں کہ معاشی صورتحال انتہائی بہتر ہوگئی ہے۔دونوں سابقہ وزرائے خزانہ کو ناکام اور معیشت کی تباہی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان کی حکومت کے موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین قرار دے چکے ہیں۔

شوکت ترین کی پالیسیوں کا نتیجہ تو ابھی آیا نہیں بلکہ اگلے برسوں میں سامنے آئے گا۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ جب وزرائے خزانہ ناکام تھے تو ان کی اقتصادی پالیسیاں کامیاب کیسے ہوگئیں؟ اور اگر گزشتہ سال کے دوران معیشت کو چار چاند لگ گئے تو پھر حفیظ شیخ کو کیوں ہٹایا گیا ؟ پھر تو انہیں تمغہ امتیاز سے نوازنا چاہئے تھا ؟

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وزرا ناکام لیکن ان کی وزارت کامیاب ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے لئے معیشت کی بہتری اور جی ڈی پی گروتھ کا یہ جگاڑ بھی ایک ایسے شخص نے بنایا ہے کہ جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی سرکاری افسر کی حیثیت سے اقتصادی پالیسیوں کے آرکیٹیکٹ تھے اور اسحاق ڈار کے ساتھ بھی سیکرٹری تھے۔

ہمیں عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بتاتے رہے کہ اسحاق ڈار کے دور میں اعداوشمار کی گڑبڑہوتی رہی۔ اب جو شخص ان دونوں حکومتوں میں یہ کام کرتے رہے تو پی ٹی آئی حکومت میں ان کے اعدادوشمار کے جگاڑ پر کیوں کریقین کیا جاسکتا ہے؟

معیشت کی بہتری اور جی ڈی پی گروتھ کے حوالے سے حکومتی دعوؤں پر اس لئے بھی یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ موجودہ حکومت اس حوالے سے ماضی میں غلط بیانی کی مرتکب پائی گئی ہے۔ مثلاً پچھلے سال بجٹ کے دوران جی ڈی پی کی جو شرح بتائی گئی، وہ اس کے اپنے نظرثانی شدہ تخمینے میں بہت کم نکلی اور پھر عالمی اداروں نے حکومت کے نظرثانی شدہ تخمینے کو بھی غلط قرار دے دیا۔

اسی طرح یہ حکومت معاشی حوالوں سے تخمینہ اور اندازہ لگانے میں بھی نااہل اور نکمی ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ سال اس نے جی ڈی پی کا جو تخمینہ سال کے آغاز میں لگایا تھا، عملاً سال کے اختتام پر جی ڈی پی گروتھ اس کے نصف بھی نہیں رہی۔

اسی طرح موجودہ مالی سال کے آغاز میں اس نے اپنے سامنے جو ہدف رکھا تھا، اب اس سے بہت زیادہ گروتھ کا دعویٰ کررہی ہے۔ یعنی پچھلے سال جو ہدف رکھا تھا، اس کا نصف بھی حاصل نہ کرسکی اور اس سال جو ہدف رکھا تھا، اب بتارہی ہے کہ اس سے بہت زیادہ گروتھ ہوئی ہے۔

اب جس حکومت کی معاشی ٹیم اس قدر نااہل یا غیرسنجیدہ ہو کہ وہ جی پی ٹی گروتھ جیسے بنیادی عامل کا صحیح اندازہ بھی نہ لگاسکتی ہو، تو اس کے دعوؤں پر کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں