مغربی دنیا کی اسلام دشمنی کوئی آج کی بات نہیں۔تاریخ کے اوراق قرونِ وسطیٰ کے عربوں اور اہل مغرب کے درمیان متواتر اور لگا تار جنگوں سے بھرے پڑے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح یہاں کی درسگاہوں میں کارل مارکس نہیں پڑھایا جاتا،ویسے ہی ان کی جنگی تاریخ میں صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی کی جواں مردی اور شجاعت کے قصے بھی خال خال پڑھنے کو ملتے ہیں۔دور ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں۔
جنگ آج بھی جاری ہے،مگر آلاتِ حرب و ضرب بدل گئے ہیں۔
آج کے دور میں ماس میڈیا بہت کارگر ہتھیار ہے،اور بدقسمتی سے اس کے استعمال میں مسلمانوں کا کردار، اور باقی رائج جدید علوم کی طرح نہ ہونے کے برابر یے۔مسلمان دنیا کے طویلے میں طوطیاں بن کے رہ گئے ہیں۔ان کے واویلے اور چیخ و پکار پہ اب کوئی کان نہیں دھرتا۔عالمی میڈیا نے گزشتہ صدی سے زائد عرصے سے مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ جنگ کھول رکھا ہے۔پہلے عیسائی اپنے پادریوں کے زیر اثر مسلمانوں سے ٹکراتے تھے۔جب سے عیسائی دنیا لہو لعب،تلذذ جنسی اور عیش پرستی کی رسیاہ ہو کر حیاتِ ارضی میں مگن ہوگئی،یہ محاذ یہودیوں نے سنبھال لیا ہے۔اگرچہ ہراول دستے میں مغربی حکومتیں ہی کھڑی ہیں،مگر ان کو فکری کمک یہودی ہی بہم پہنچا رہے ہیں۔
پراپیگنڈہ،اور مسلسل پراپیگنڈا۔
یہ انہوں نے جنگ عظیم میں جرمنوں سے سیکھا۔
پراپیگنڈہ کو سادہ اور عام فہم زبان میں بیان کریں تو اس کو “سائیکالوجیکل وار فئیر”کہتے ہیں۔
اتنا پراپیگنڈہ کہ مسلمانوں کو دنیا میں دہشت گرد بنا کے رکھ دیا گیا۔خود یہ لوگ بھول گئے خود ان پر بھی ایک ایسا ہی دور گزرا جب تقریباً تین سو بعد از مسیح،رومن بادشاہ کونسٹنٹائین اعظم کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد ان پہ ہر جگہہ عرصہ حیات تنگ ہوگیا۔اور یہودی نام بہ مترادف گالی کےگنا جانے لگا تھا۔آج مسلمان زیرِ اعتاب ہیں۔
“جنوں کا نام خرد،خرد کا رکھ دیا جنوں
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے”
کل میرے ایک بنگلہ دیشی دوست ،ملاقات کے لئے تشریف لائے ،عمر پینسٹھ کے لگ بھگ ہے،عمر بھائی کی طبیعت میں اسلامیات ہر وقت موجزن رہتی ہے،وقتاً فوقتاً گوروں اور دوسری اقوام کے لوگوں کو قرآن مجید بھی ھدیہ کرتے رہتے ہیں۔باتوں کا سلسلہ چل نکلا تو لندن میں پاکستانی خاندان کے بہیمانہ قتل کا ذکر بھی آگیا۔
ہم دونوں غمگین ہوگئے۔
کینیڈا کے دس صوبے اور تین ٹیریٹوریز ہیں۔ان میں اونٹاریو سب سے گنجان آباد صوبہ ہے،یہ واقعہ اونٹاریو کے شہر لندن میں پیش آیا۔
ایک پاکستانی خاندان سڑک کنارے کھڑا تھا،کہ ایک شقّی القلب شخص نے ان پر ٹرک چڑھا دیا،چار افراد داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔قاتل نوجوان اور یہودی بتایا جاتا ہے۔کینیڈا کے وزیراعظم نے پرزور الفاظ میں اس واقعے کی مذمّت کی اور واشگاف انداز سے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا۔
دوست بتانے لگے میں سن ستاسی میں چٹاگانگ سے ہجرت کر کے یہاں اس ملک میں آیا۔ان کی ایک بات سے سارا عقدہ حل ہو گیا۔
بقول ان کے تب مغربی تہذیب کی جلوہ سامانیاں اپنے بامِ عروج پر تھیں۔عریاں ہونے کے لئے نہ شب کا انتظار کیا جاتا تھا،نہ جی چاہنے کا۔بے پردہ اور نیم سے کچھ زائد برہنہ سراپے عام گلیوں،سڑکوں اور پارکوں میں اٹھکیلیاں کرتے ٹہلا کرتے۔دن کے وقت بے لباس حوران ارضی اپنے باغیچوں میں بے پرواہ سن باتھ لیا کرتیں۔
کہتے ہیں نہ اجالا تاریکی کو کھا جاتا ہے۔آہستہ آہستہ دنیا کے مختلف ممالک سے مسلمان یہاں آکر آباد ہونا شروع ہوئے،تو یہ لوگ بھی عورت کی رِدا،عبا اور قباء سے آشنا ہونا شروع ہوئے۔تمدّن پر لا محالہ کچھ نہ کچھ اثر پڑا،ہر روز روزِ عید ہے ،ہر شب شبِ برات کے معمولات میں فرق آنا شروع ہوگیا۔
انسان کی فطرت میں نیکی اور بدی الہام کر دی گئی ہے۔
ویسے بھی اسلام جو تہذیب انسان کو سکھاتا ہے،وہ نا تو تر دامنی ہے،نہ آئے روز کی علماء کی دعوت و تبلیغ میں مضمر زاہدانہ خشک زندگی گزارنے کا درس۔
اس کے بر عکس مسلمان جسم و روح کا ایک متوازن اور حسین امتزاج ہوتا ہے۔
بوڑھی ہوتی گوری نسلوں کو بھی خاندان اور جنسی اخلاقیات کی اہمیت کا اندازہ ہونا شروع ہوا۔تو سفلی،نفسی،اور جنسی لذائذ کا سر عام حصول برا سمجھا جانے لگا۔صنفی آزادی کی آڑھ میں کھلے عام شہوت رانی معیوب ٹھہری۔بندوبست ویک اینڈز پہ موقوف ہو گئے۔بڑوں کی روک ٹوک اور صنف نازک کی ہمہ وقت ہمراہی میں رکاوٹ آنا شروع ہوئی تو قصور وار پردہ دار عورت ٹھہری ۔آپ کو سابق امریکی صدر کا وہ بیان بھی یاد ہو گا کہ ہم اپنے کلچر پہ کوئی مداخلت برداشت نہیں کر یں گے وہ کلچر یہی مادر پدر آزادی کا کلچر ہے ۔مغربی نوجوان نسل مسلمانوں سے خائف ہے۔انگریزی بولنے والے مغربی ممالک میں اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ یہی حال رہا تو یوں عورت کے حسن و جمال سے متعلقہ لوازمات کی بلین ڈالرز کی انڈسٹری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔یہ ابتداء ہے انتہا کچھ بھی ممکن ہے۔اگرچہ کتٌوں کے بھونکنے سے قافلے رُکا نہیں کرتے،نہ کارواں کا رستہ کھوٹا ہوتا ہے،ہاں مگر دنیا ضرور کچھ دیر کیلئے متوجہ ہو جاتی ہے۔یہاں بھی مبادیاتِ اسلام،اساسیاتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف بکواس کرنے والوں کی کمی نہیں،لیکن جب پاکستان میں بیٹھ کر لوگ دریدہ دہنی سے باز نہیں آتے تو دکھ ہوتا ہے ،مغربی آقاؤں کی نمک حلالی کرتے یہ لوگ اسپین سے مسلمانوں کا جبراً انخلاء اورزندہ جلانے جانا،خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ اور جنگ عظیم کے بعد عرب ممالک کی کتر بیونت اور آپس میں بندر بانٹ کو بھول جاتے ہیں۔
شائد غداروں کی یاداشت کمزور ہوتی ہے۔
لیکن اتنا تو یاد رکھیں ہماری آخری پناہ گاہ اور مسکن،ملکِ عزیز پاکستان ہے۔
_____________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔