دنیا کو سالانہ اربوں روپے کا گوشت برآمد کرنے والے بھارت نے عیدالاضحیٰ سے پہلے مذہب کے نام پر جانور ذبح کرنے پر پابندی پر غور شروع کردیا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعویدار بھارت کی مودی سرکار ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے فارمولے پر چلتی ہے، پیسہ کمانے کا موقع آئے تو دنیا بھر میں گائے اور بیل کا گوشت برآمد کرنے میں چوتھا نمبر لاتی ہے جب کہ مذہبی آزادی کا ذکر ہو تو مسلمانوں کے خلاف ہی گاؤ رکشک بن جاتی ہے، انتہاپسند گروہوں کو لائسنس ٹوکِل دیتی ہے،گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کی زندگی چھینتی ہے،کسی بھی طریقے سے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو جینا مشکل بناتی ہے۔
عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے اور اب مودی سرکار نیا شوشا چھوڑنے جارہی ہے، حکومت ایک ایسے قانون کو ختم کرنے کے لیے غور کی حامی بھرچکی ہے جس کے تحت جانوروں کو مذہبی بنیاد پر کسی بھی طریقے سے ہلاک کیا جاسکتا ہے، جانوروں کی قربانی پر مکمل پابندی عائد کی جاسکتی ہے، 1960 کے اس قانون کی شق نمبر 28 کو ختم کرنے کا مطالبہ جانوروں پر مظالم کے خلاف عالمی تنظیم کی بھارتی شاخ نے بھارتی حکومت کو ایک خط لکھ کرکیا ہے۔
یعنی پیسہ کمانے اور بیف برآمد کرنے کے لیے گائے اور بیل گرایا جاسکتا ہے لیکن مذہب کے نام پر قربانی نہیں کی جاسکتی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت ایک طرف جانوروں کی قربانی کے معاملے میں مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے تو دوسری طرف گائے اور بیل کا گوشت برآمد کرکے تین سے چار ارب ڈالرز کا منافع کماتی ہے۔