بوسیدہ خیالات، تحریر: عمران رشید

ہزاروں سال پرانا انسان،صدیوں غاروں کا مکین اور اب ستاروں کو مکان کیے ہوئے۔اپنی اصل میں خاکی مگر نگاہ اور پرواز آفاقی۔مجموعہ اضداد ہے حضرتِ انسان۔ جنگلی درندوں،حشرات الارض،آسمانی اور زمینی آفات،مہیب سنّاٹوں،کہر باراور گرم بار موسموں سے لڑتا،سمندروں ، ،دریاؤں کی پرُ ہول وحشتوں سے لرزتا اور اجرامِ فلکی کی بے پایاں وسعتوں اور گردشوں کو سمجھتا سمجھاتا زندگی کی خار زار تنگنائیوں کو عبور کرتا،آج آخر اپنی زندگی کو  راحتوں سے مزین کئے اپنے جلوء میں ہزاروں سامانِ تعیش لئے بیٹھا ہے۔
لیکن وہ اپنے اندر سے اوائل حیات کا وہ انسانی ڈر آج تک نکال نہیں پایا۔جو آج بھی مختلف واہموں اور وسوسوں کی شکل میں اس کے دل ودماغ کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے
ہے  ۔
جو توہم پرستی کی شکل میں کسی نہ کسی رنگ اور شکل میں دنیا کے مختلف ممالک،قوموں اور تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔
انجانے ،ان دیکھے ہزار خوف اس کے اندر سرسراتے رہتے ہیں۔
میں نیا نیا کینیڈا آیا تو وینکوور ٹھہرا تھا۔یہ ان کے اک صوبے برٹش کولمبیا کا اک اہم سیاحتی شہر ہے۔یہاں چائینز بہت زیادہ تعداد میں آباد ہیں۔میں نے دیکھا عمارات پہ نمبر چار دیکھنے کو نہیں ملتا۔ٹورانٹو آیا تو یہاں بلندوبالا عمارات میں تیرہویں منزل ہوتی ہی نہیں،بارہویں منزل کے بعد چودہویں منزل آجاتی ہے۔وجہ چائینز لوگ نمبر چار اور آٹھ کو منحوس خیال کرتے ہیں اور کینیڈا اور امریکہ میں نمبر تیرہ بدشگونی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ہندوپاکستان میں بھی بہت سی ضعیف الاعتقادی پر مشتمل رسومات کی بھرمار پائی جاتی ہے۔نظرِ بد کا توڑ کالا ٹیکہ،شیشہ ٹوٹنا،دودھ ابلنا،بدھ کا دن،صفر کے مہینے میں سفر،کالی بلی کا رستہ کاٹنا،دائیں اور بائیں آنکھ کا پھڑکنا سب افعال بدشگونی کے زمرے میں آتے ہیں۔عرب لوگ سفر کے بعد گھر کے پچھلے دروازے سے داخل ہوتے،اپنے کاموں کے لئے فال نکلواتے۔گھر،عورت اور سواری کو منحوس گردانتے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایک معاشرے کا  قبح دوسرے کا حسن ہے۔الو پاکستان اور دیگر عرب ممالک میں بے وقوفی اور نحوست کی علامت ہے تو وہیں امریکہ اور کینیڈا میں عقل اور آگہی کا نشان ہے۔گدھا  برصغیرمیں عامیانہ بوجھ اٹھانے والا جانور تو امریکہ میں ہمت و حوصلے کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔
کئی معاشروں نے دوسرے معاشروں سے اوہام قبول کئے۔پاکستان میں ہوا میں قینچی چلانے کا عملِ منحوس مصر سے ہندوستان اور پاکستان میں آیا۔چیونٹیاں قطار اندر قطار چلیں تو بارش آتی ہے،گورے اپنے ساتھ برصغیر میں یہ فکرِ اکبر لے کر  آئے۔میں نے پاکستان میں قبروں پہ چراغ جلتے دیکھے،وہاں مٹی کے دیئے تھے،تو یہاں ان کی قبروں پہ الیکٹرک لالٹینیں دیکھیں،فرق صرف ٹیکنالوجی کا نکلا ،تصور وہی پرانا،مایہ تہذیب سے ہوتا مختلف معاشروں میں سرایت کر گیا کہ روح کو اپنے مقام تک پہنچنے میں بڑی لمبی اور تاریک سرنگوں سے گذرنا پڑتا ہے۔یہ چراغ یہ لالٹینیں دورِ قدیم کے خوف کی باقیات ہیں۔
فرسودہ خیالات کی نشوونما کیسے ہوتی ہے،اس کے پہلو بے شمار ہیں۔شخصی مشاهدات اور تجربات بھی ہو سکتے ہیں۔یا اگر کوئی منو سمرتی جیسا کوئی شخص اگر منو شاستر میں لکھ دے کہ عورت منحوس ہے تو صدیوں عورت کو منحوس کہلوائے جانے کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔
لوگ اٹھتے رہے انسانوں کو ذہنی تاریکیوں سے نکال کے اجالوں کی طرف لے جانے کی کوششیں کرتے رہے،سقراط نے ساری زندگی طرزِ کہن سے احتراز کا نعرۂِ مستانہ بلند کئے رکھا،بقراط غیبی طاقتوں کا قائل نہ تھا،تمام عمر وہ اس بات کا قائل رہا کہ جسم میں بگاڑ بھوت پریت سے یا جادو ٹونے سے نہیں بلکہ قدرتی بیماریوں سے ہوتا ہے۔بطورِ مسلمان ہم دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی الوہی تعلیمات سے تمام باطل،فرسوده،توهم پرست،بدشگونی اور نحوست پر مبنی افعال و اعمال،جادو ٹونے،کہانت،علم نجوم ،فالگیری کی نفی اور ممانعت فرمادی۔
فرمایا۔ماہِ صفر میں بیماری،نحوست،اور بھوت پریت کا کوئی نزول نہیں ہوتا۔اور کسی چیز میں کوئی نحوست نہیں ہوتی،گھر،عورت اور سواری ان سے بھی برکت ہوتی ہے۔
مزید تاکید کی کہ جو کوئی کسی کام سے بد فالی پکڑ کے پیچھے ہٹا تو اس نے شرک کیا۔
اور تعلیم دی کہ اللہ پر توکّل سے وہم دور ہوتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ بڑے بڑے مصلحین،پیامبرانِ مذاہب ایک حد تک ہی ان کو ختم کر سکے۔آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلواتے اور بے شمار ایسے بھی ہیں جو کورونا وائرس کی ویکسین لینے پر بھی آمادہ نہیں۔اس میں بھی یہود و ہنود اور نصاریٰ کی سازشوں کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ 
نہیں معلوم انسان کی رگوں میں دوڑتے یہ ڈر اور خوف کب دبے پاؤں چلنا شروع کریں گے۔

“یہ آدمی کی گزر گاہ شاہراہِ حیات
ہزاروں سال کا بارِ گراں اٹھائے ہوئے

جہالتوں کی طویل و عریض پرچھائیں
توہمات کی  تاریکیاں  جگائے  ہوئے”…….
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں