ایسا نہیں ہے کہ حکومت مخالف جماعتوں کے حمائیتی اور ازلی ووٹرز پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت پہ صرف تنقید برائے تنقید ہی کرتے ہیں۔ زمینی حقائق انکے جذبات کے عین مطابق ہیں ۔ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ، بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لئیے ۔ کرونا کی کوکھ سے جنم لے کر معاشرتی ابتری میں اضافہ کرنے والی صورت حال کا مرکز و محور اگر کسی ایک چیز کو ٹھہرایا جا سکتا ہے تو وہ ہے مہنگائی ، گو یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کی زد میں پاکستانی عوام ہر دور میں آتے ہی رہے ہیں اور تب تک آتے ہی رہیں گے جب تک پاکستان پہ سود در سود چڑھائے گئے قرضوں کا بوجھ مکمل طور پر اتار نہیں دیا جاتا ۔ لیکن پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کرونا کی وبا اور اب ڈیلٹا وائرس نے معیشت پہ کاری وار کر کے جو زخم لگائے ہیں ان کے مکمل مندمل ہونے میں بہت عرصہ درکار ہے ، چہ جائیکہ اس دوران میں کوئی مذید مہلک وائرس نہ آ جائے ۔ گویا مجموعی کاروباری حالات کرونا کے بعد اب ڈیلٹا وائرس کی وجہ سے، اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہوئے ہم ، والی صورت حال کی عکاسی کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ان کی ہی شرائط پر سود پہ قرضے لے کر عوام کو اشیائے ضروریہ کی خریداری پہ سبسڈی دے دی جائے ، یہ ہے آسان ترین حل، کہ جس پہ ماضی قریب کی حکومتیں عمل بھی کرتی رہی ہیں ، عارضی طور پر مہنگائی کو کنٹرول کر کے ، گویا ڈنگ ٹپانا ، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ملک میں امن وسکون ہو اور تمام اسٹیک ہولڈرز پاکستان کو اپنا گھر سمجھیں اور اپنے ملک کی تیار کردہ چیزوں کو اپنے استعمال میں لائیں اور زیادہ سے زیادہ توجہ برآمدات پر مرکوز کریں ، زر مبادلہ سے ملکی خزانہ بھریں ۔اس ضمن میں سب سے اہم ترین کام جو آسودہ حال عوام کے کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی اصل کمائی پہ بننے والے ٹیکس کی رقم کو ملکی خزانے میں بروقت جمع کروائیں ،جبکہ ایسا نہیں کیا جاتا ۔موجودہ سیاسی نظام کے کرتا دھرتاؤں کو سب پتہ تھا کہ جس سیاسی نظام کو جمہوریت کا نام دے کر وہ پاکستان میں رائج کر رہے ہیں وہ جمہوری ماڈل ترقی یافتہ ممالک میں تو چل سکتا ہے ، یہاں نہیں ، کیونکہ وہاں بھی یہ ماڈل بتدریج ہی رائج کیا گیا تھا ، ہماری طرح یک مشت اٹھا کر تھونپ ہی نہیں دیا گیا ، صدیوں پہ محیط طویل دورانیے کے بے شمار مراحل طے کر چکنے کے بعد انگلستان میں موجودہ جمہوریت کی شکل سامنے آئی ہے ، جس کی پارلیمنٹ کو دنیا کی تمام پارلیمنٹس کی ماں کہا جاتا ہے ۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، اپنے پرانے آقاؤں کا سیاسی نظام اپنے ملک میں نافذ کر دیا ۔ یہ وہی نظام ہے کہ جس کہ متعلق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کیا خوب فرما گئے ہیں کہ ، یہ راز اک مردِ فرنگی نے کیا فاش ،ہر چند کہ ناداں اسے کھولا نہیں کرتے ، جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں ،بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔ انگلستان میں بندے گنے جاتے ہیں ، تولے نہیں جاتے جہاں ہر کسی کو ووٹ کا حق ملنے میں صدیاں لگ گئیں ، گویا وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ جسے ووٹ کا حق دیا جا رہا ہے وہ اس کے استعمال کے قابل بھی ہے کہ نہیں۔ اب پاکستان کے تناظر میں اسی رائج سسٹم کا یہ بھی ایک شاخسانہ ہے کہ سو بدمعاش ایک طرف اور نناوے متقی اور پرہیزگار ایک طرف ،عددی برتری سے منتخب ہونے والا سو بدمعاشوں کا قائد ہی عوام کا قائد بنا دیا جاتا ہے ۔ جمہوری نظاموں میں کم ازکم خباثتوں کے ساتھ ایک صرف صدارتی نظام ہی ایسا ہے جو اسلامی نظام کے قریب ترین کہلایا جا سکتا ہے۔ شاید مستقبل میں اسے ہی رائج کر دیا جائے ،مگر فی الحال اسی رائج جمہوریت میں من حیث العوام ہم جتنے بھی اخلاقی، روحانی ، اور معاشرتی گناہ کر سکتے ہیں، بلا روک ٹوک کر رہے ہیں۔ ایک صرف مہنگائی پہ ہی موقوف نہیں ، مہنگے داموں خرید کر بھی چیزوں کے خالص ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ۔ بہرحال ایسا کیوں ہے ، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت کم فیصد عوام اور خاص طور پر مہنگائی پہ شور اٹھانے والے افراد ہو نگے،جو وکیلوں کی فیس کے علاوہ خزانے میں بھی کچھ جمع کرواتے ہونگے ۔اچھے خاصے صاحبانِ جائیداد بھی ایسا کہتے پائے جاتے ہیں کہ جی ہم جو چیز بھی خریدتے ہیں اس پہ ٹیکس لگا ہوتا ہے جسے ہم خریداری کر کے ادا کر دیتے ہیں ۔ مگر ایسا تو تمام یورپ اور امریکہ کینیڈا میں بھی ہوتا ہے کہ تقریباً ہر خریدی جانے والی چیز پہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے ، لیکن سال کے آخر پہ اپنی کمائی پہ بھی وہ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ ان کا سیاسی نظام تو چپکے سے اٹھا کر یہاں رائج کر دیا گیا اور عوام نے اسے سند قبولیت بھی عطا کر دی ، پھر ان کی تقلید میں ٹیکس کیوں نہیں ادا کیا جاتا۔ سوائے سرکاری اور کاغذوں میں آئے ہوئے غیر سرکاری ملازمین ہی اس فریضے سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور وہ بھی باامر مجبوری، کہ ان کو تنخواہیں ادا کرنے سے پہلے ہی ان سے ٹیکس کی کٹوتی کر لی جاتی ہے، ورنہ وہ بھی، الا ماشاء اللّٰہ ،کبھی بھی ٹیکس ادا نہ کریں۔ امام الشعراء مرزا اسد اللّٰہ خاں غالب کیا خوب فرما گئے ہیں کہ ، قرض کی پیتے تھے مّے اور سمجھتے تھے کہ ہاں ، رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ سودی قرضوں کو پاکستانی عوام کی نسلوں کے خون میں اتار دینے والوں اور دجالی طاقتوں کو تقویت دینے والوں نے عارضی خوشحالی کا جو شیطانی عمل شروع کیا ہوا تھا ، اس کے مکمل خاتمے کا بہرحال آغاز تو ہو چکا ہے ، قرضے اتر جائیں گے تو حقیقی خوشحالی بھی آ جائے گی، سودی قرضوں کے بغیر سرکاری خزانہ بھرا ہوا ہو تو حکومت ہر چیز پہ باآسانی سبسڈی دے کر مہنگائی کو کنٹرول کر سکتی ہے ،اور جب تک ایسا نہیں ہو پاتا، تب تک عام عوام کے لئیے قدرے مشکل وقت ضرور ہے ، مگر اسے گزارنا ہی پڑے گا، اور مہنگائی کا واویلہ کرنے والے صاحبان حیثیت افراد کو اچھے شہریوں کی طرح ملکی خزانے میں پورا ٹیکس جمع کروا کر اپنی اولاد اور خود اپنے وجود کو حلال کی کمائی سے پالانا ہی پڑے گا ، اور اس ضمن میں منبر ومحراب کے رکھوالوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کر کے ثوابِ دارین حاصل کر لینا چاہئیے، اور اپنے مقلدین کو اپنے واعظ وارشاد میں بتانا چاہئیے کہ صرف سور کا گوشت ہی حرام نہیں ہوتا بلکہ ٹیکس چوری سے بچایا ہوا پیسہ بھی حرام ہی ہوتا ہے ۔ ملکی رائج نظام تو پہلے ہی سودی ہے جس کے دامن میں سوائے ذلت اور محرومی کے اور کچھ نہیں ،مگر اس نظام کے خاتمے کی کوئی بات نہیں کرتا اور عوام کو، کبھی مہنگائی سے نجات، کبھی روٹی کپڑا اور مکان ،کبھی سب سے پہلے پاکستان ،کبھی قرض اتارو ملک سنوارو اور اب اسے مدینے کی ریاست بنانے کے دعوؤں کی آڑ میں مزید بیوقوف بنایا جارہا ہے اور سبھی خوشی سے بن بھی رہے ہیں ، مذکورہ جھانسوں میں سے کسی نہ کسی جھانسے میں آ کر، اور یہ سلسلہ تبھی رکے گا جب عوام قوم بننے کی طرف خود ہی راغب ہونگے اور پاکستان کو اپنا گھر سمجھ کر خود کو بدلیں گے۔ اس ضمن میں بے حسی کا جمود ٹوٹنا شروع تو ہوا ہے مگر ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے ، جو مختصر بھی ہو سکتا ہے مگر ایسا شاید بہت سوں کو منظور نہیں، لہٰذا آسودہ حال عوام فی الحال اپنی کمائی پر بروقت اور درست طریقے سے ٹیکس کی ادائیگی ہی کر دیں تو انکی مہربانی ہو گی اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر حکومت اس حوالے سے جتنی بھی سختی کر سکتی ہے فوراً کرے، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان غریب کا ہی ہو گا، کیونکہ ہر لحاظ سے پِستا صرف غریب ہی ہے ،اور اس پہ مستزاد یہ بھی ہے کہ ٹیکس چور امیر افراد مہنگائی کا رونا رو کر اسی غریب طبقے کو اپنے مذید مذموم مقاصد میں استعمال بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کے دعوے دار کیا ایسا کر سکیں گے۔ جب تک ایسا نہیں ہو پاتا تب تک عوام خود کو یہ سوچ کر طفل تسلیاں تو بہرحال دے ہی سکتے ہیں کہ ،جہاں تہتر سال گزر گئے وہاں تھوڑا عرصہ اور سہی ، واہ عدیم ہاشمی مرحوم یاد آ گئے ، کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے ، تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
____________________________________________________________________________
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں.