مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں ویکٹر بورن ڈیزیز (مثلاًملیریا اور ڈینگی) جیسے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن اب کورونا وبا نے بھی ایک نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے جس کے پیش نظر کورونا اور ویکٹر بورن بیماریوں میں تشخیص ایک مشکل عمل تصور کیا جارہا ہے۔
نیشنل سینٹر فور بائیو ٹیکنالوجی انفارمیشن میں شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق ڈینگی اور کورونا وائرس کے درمیان ایک جیسی علامات ڈینگی سے متاثرہ ایشیائی ممالک کے لیے ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔
تحقیق میں انڈونیشیا کے اسپتال آنے والے ایک ایسے مریض کا ذکر موجود ہے جس میں بیک وقت کووڈ 19اور ڈینگی کی تشخیص کی گئی۔
ماہرین کے مطابق ملیریا، ڈینگی اور کووڈ کی علامات مشترکہ ہوسکتی ہیں جس کے باعث مرض کی تشخیص اور علاج دونوں مشکل ہے تاہم ضروری ہے کہ کورونا اور موسمی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھرپور کوشش کی جائے۔’
بڑھتے کیسز کی روک تھام کے لیے تشخیص ضروری
مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی ملیریا اور ڈینگی کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، بخار، اسہال ، قے، سردرد اور جوڑوں میں درد ان بیماریوں کی علامات میں شامل ہیں تاہم کھانسی، ذائقہ اور کسی چیز کی خوشبو یا بدبو سے محرومی اور گلے میں درد جیسی اضافی علامات کورونا کی تشخیص کا باعث بن سکتی ہیں۔
ڈینگی، ملیریا اور کورونا کی علامات میں فرق کیسے کیاجائے؟
ڈینگی کی عام علامات میں اچانک تیز بخار ، قے ،متلی ،جسم میں شدید درر ، پلیٹلیٹس میں کمی اور ریشز وغیرہ شامل ہیں۔
ملیریا کی علامات میں بخار میں کپکپی طاری ہونا ، سردی لگنا ، سر درد اورقے شامل ہے اور کبھی کبھار دورے ، پسینہ آنا، اس کے بعد تھکاوٹ بھی ملیریا کی علامات ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق کورونا کی علامات میں بخار ، خشک کھانسی، تھکاوٹ کے ساتھ درد، سر درد کے ساتھ گلے میں درد ، اسہال ، سانس لینے میں دشواری جیسی علامات شامل ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق اگر کسی شخص کا بخار 2 سے 3 دن کے دوران بھی کم نہ ہو تو اسے چاہیے اپنے معالج سے فوری رابطہ کرے۔
ڑھتے کیسز میں کمی کیسے ممکن ہے؟
اپنے گھروں اور اردگرد کی جگہوں کو مچھروں سے محفوظ بنائیں، ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کرکے وائرل انفیکشن کے پھیلاؤ کو کم کریں۔
ابلے ہوئے پانی کا استعمال کریں اور گھر کا پکا ہو اتازہ کھانا کھائیں جب کہ کچھ بھی کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئیں، اپنے ہاتھ اور منہ کو چھونے سے پہلے ہاتھ لازمی دھوئیں۔