جیسے جیسے نوعِ انسانی شعور و آگہی کی منازل طے کرتی گئی،ویسے ویسے ربّ کائنات کے عطا کردہ محشر خیال دماغ میں ہزاروں سوالات بھی پیدا ہونا شروع ہوگئے ۔معاشروں اور تہذیبوں کا سب سے قدیمی اور بڑا سوال یہی رہا ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔اس تمام سفر کا حاصل کیا ہے۔فلسفی،حکمائے مشرق و مغرب،دانیانِ مذاہب اور پیغمبرانِ خدا ان سوالات کے جوابات دیتے آئے ہیں۔فرق صرف یہ تھا کہ پیغمبروں کے سِوا باقی تمام اہلِ فکر کا جواب ان کے ذاتی مشاہدات،تجربات و حوادثات ِدنیا پہ مبنی ہوا کرتا تھا جبکہ پیغمبروں کا جواب ابدی براہین پہ مشتمل اپنے اندر اُلوہی ہدائیت کو سموئے ہوتا ۔پیغمبروں نے لوگوں کو بتایا یہ دنیا خیروشر کا مرکب ہے،اور یہاں ہر دم حق و باطل کا معرکہ بپا ہے۔ہدائیت کا راستہ جدا ہے اور گمراہی کا راستہ الگ۔ان کے جوابات سے اذھان کی علمی بیقراری کو قرار آیا اور تپتی روحوں کو سیرابی حاصل ہوئی۔اور یوں لوگ گروہ در گروہ ان کے پیروکار بنتے گئے۔
پیغمبروں کے اُٹھتے ہی باطل قوتیں اُٹھ کھڑی ہوتیں۔اور ان کی پیش کردہ تعلیمات کو توڑ مروڑ کر بیان کرنا شروع کر دیتیں۔لوگ پھر حق و باطل میں تمیز کے لئے رشدوہدایت کے مراکز کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے۔
لوگ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی پوچھتے ہیں کربلا کا خونچکاں واقعہ کیونکر پیش آیا۔وہ بھی محرم میں۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں چاروں حرمت کے مہینے بھی بیان کر دیئے اور ان میں ظلم سے بھی منع فرما دیا تھا۔
ہر سال پتہ نہیں کیوں دس محرم چلا آتا ہے۔احقر کو محرم کے آنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں اور نہ کوئی تاریخ کے دس ہونے پر قدغن لگا سکتا ہے۔
پر دس محرم آتا ہے تو قلب و جگر میں اک آگ سی لگا جاتا ہے۔دلِ خستہ تر میں غم و یاس کی تاریک پرچھائیاں اتر جاتی ہیں۔دل یوں بجھ سا جاتا ہے جیسے کبھی اہل بیت کے خیمے جل جل کے بجھ گئے تھے۔
ماہ محرم کی خود اپنی ایک الگ تاریخ ہوا کرتی تھی۔مگر خانوادہ نبوی کی شہادتوں کے بعد خود محرم کی تاریخ صرف اہل بیت سے منسوب ہو کر رہ گئی۔جب سے محرم کی نسبت اہل بیت سے جڑی،محرم کی گزشتہ سے پیوستہ تمام تاریخ ،تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گئی۔
اور ناں ہی محرم اس کے بعد کوئی تاریخ رقم کر سکا۔اللہ اکبر۔تاریخ کا اتنا جانگداز واقعہ؟چشمِ فلک نے پھر کبھی نہ دیکھا۔
“اپنا سودا بیچ کر بازار سُونا کر گئے
کونسی بستی بسائی،تاجرانِ اہلِ بیت”
جب سے انسانی نطق نے قوّت گویائی سیکھی،رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم،اور سبطِ رسول کی شان میں جتنے الفاظ بولے گئے اور لکھے گئے،ایسا کوئی تیسرا کردار دنیا کی معلوم تاریخ میں نظر نہیں آتا۔
شارع اسلام کی بتائی اور سمجھائی ہوئی شریعت میں جب ردوبدل شروع ہوا ،تو پورے عرب اور پھیلتے عالم اسلام میں ایسا کون تھا،جو خلافت و ملوکیت میں فرق کو سمجھا پاتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما گئے “ھم بنی ہاشم بنی نوع انسان کی رشدوہدایت کے لئے ہیں”
تو خانوادہ بنی ہاشم،آلِ رسول نکلے۔۔
اسی مہینے ایمانیات کو نئے مفہوم عطا ہوئے۔
ایمان بالغیب کو حیاتِ نو،اہل بیت نے اپنی رگوں میں دوڑتے نبوی خون کو بہا کر دی۔
اسی مہینے دنیا اور اقتدار ارضی اور عارضی کی جگہ،خالص اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور خون آلود پیشانیوں سے سجدے کئے گئے،اور سجود کو حقیقی معنویّت اپنے گرد آلود،جسم نازنین،کٹے پھٹے،چِھدے ہوئے بدنوں سے عطا کی۔
اسی مہینے اپنا پورا کُنبہ قربان کر کے اپنے ابراھیمی خاندان کی روایت برقرار رکھی،اور رہتی دنیا تک بتا دیا کہ خون بولتا ہے۔
اپنا ،پتہ،رُتبہ،اور مقام بتاتا ہے۔
اسی مہینے شہادت کو زندہ معنی عطا ہوئے،کوئی شہید ہو جائے اور ساتھ امام حسین کا نام نامی ذہن میں نہ آئے تو وہ شہادت بھی اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے شائد۔
تصّور اہل بیت آجائے تو لفظی تکمیل اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔
محرم آئے اور اپنے ساتھ شامِ غریباں نہ لائے۔محرم نہیں ہوتا۔
ہائی اسکول سے والدِ گرامی قدر بھاءجی رشید کے ساتھ شامِ غریباں،شبِ عاشور دیکھنا اور سننا اور اہلِ بیت کے مصائب و الم میں سوگوار ہونا اور دین کے نئے نئے معنی اور مطالب سیکھنا،یہ بھی احقر کی زندگی کا لازمہ رہا ہے۔
اور باعثِ شرف ہو گا اگر باقی ماندہ زندگی بھی آلِ رسول کا ذکر سنتے گزر جائے۔
اب ادھیڑ عمری میں پہنچے تو دیگر اور لوگوں کی طرح سوالات بھی سر اٹھانے لگے کہ آخر واقعہ کربلا کا پس منظر،پیش منظر اور تہہ منظر کیا تھا۔
قاتلانِ حسین کی پشت پناہی کون کر رہا تھا۔
آنکھیں کھول کر اور غیر ضروری عقیدت کو ایک طرف رکھ کے دیکھا تو کھیل سارا سمجھ آگیا۔
کربلا تو اک کسوٹی بن کر رہ گئی ہے انتہا ئے دنیا تک۔
غور کیا تو ہر طرف کرب و بلا کا ہی منظر دیکھا۔
خائن اور دین سے برگشتہ لوگوں،سیاست دانوں،اور صاحبانِ اقتدار اور با اثر لوگوں کی بے جا ء اور ناحق حمایت کربلا کا پر توء نہیں تو اور کیا ہے۔
مذھب کی آڑھ میں ذاتی منفعت کا حصول اور منافقانہ رویے،غلط لوگوں کے ہاتھ مظبوط کرنا،خواہ وہ حلقہ احباب میں ہوں،خاندان میں،گلی محلوں میں یا پھر ملکی سیاست پر قابض چہرے،ہر جگہ کربلا نہیں برپا تو اور کیا ہے۔
حق و باطل کے معیار امام عالی مقام اپنا متبرک خون دے کر طے کر گئے۔
جس کو اقبال بھی رموز بیخودی میں اشعار میں بیان کر گئے۔
“موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطِل آخر داغِ حسرت میری است”
موسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام حسین اور دیگر دو۔زندگی گزارنے کے دو راستے اور دو قوتیں ہیں۔
جن میں پیروی موسیٰ اور حسین کی کرنی چاہیے۔
شبیری قربانی نہیں کوئی دے سکتا تو کم از کم حق گوئی کا آوازہ تو بلند کرنا چاہیے۔
عرض صرف اتنی ہے کہ یہ حیاتِ مستعار جلد انجام پذیر ہونے والی ہے۔
اس چھوٹے سے حق و باطل کے معرکے میں اپنا گروہ،آپ خود،اپنے تقلیدی چہروں میں ڈھونڈھ لیجیٔے۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔