درسِ مغرب اور عورت، تحریر: عمران رشید

طالبان پھر آگئے؟یہ طالبان نہیں،یہ ذریّت دینِ محمد ہیں۔
یہ مسلمان ہیں۔دنیا باقی ہے تو یہ بھی باقی رہیں گے۔یہ آتے رہیں گے۔ان کے دل اور جگر میں لگی آگ تو کب کی بُجھ  کےراکھ ہو چکی،مگر ابھی بھی اس راکھ کے ڈھیر میں کچھ سلگتی چنگاریاں باقی ہیں۔
افغانستان میں امریکہ اور اس کے ہمراہیوں کا بیس سالہ دھشت گردی،لوٹ مار اور مسلم کشی کا دور تمام ہوا۔اور وہ بھی ایسے کہ انہیں الٹے پائوں بھاگنا پڑا،سارا مال،سازو سامان بطورِ غنیمت فاقہ مست افغانوں کے لئے چھوڑ گئے۔
فیصلہ باری تعالیٰ تھا۔

“نجانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں،جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔”البقرہ-

یہ کیوں آتے رہیں گے؟وجہ بہت سادہ اور آسان فہم ہے۔وہ ہے دینِ قیّم اور مکمل۔ابتدائے آدم سے حیاتِ انسانی زندگی کی ہر جہت پہ غور خوض کرتی آئی ہے۔اور وقتاً فوقتاً اپنے لئے قوانین واساطیر بھی مرتب کرتی آئی ہے۔جو ہر زمانے اور ہر معاشرے کا تہذیبی اثاثہ ہوا کرتا۔

عقل بھٹکتی رہی تو خدائی مداخلت اور راہنمائی بھی آتی رہی۔جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر مکمل ہو گئی۔
اب دین کے اصول و قوانین وہی رہیں گے،ہاں مگر بدلتے زمانے سے مطابقت کیلئے جزیات میں اجتہاد کی گنجائش رکھ دی گئی۔
ھم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس کے دو پہلو ہیں ایک مادی اور دوسرا روحانی۔
مادی ترقی میں مغرب کی بالادستی مسلم ہے۔اس کو ابھی تک کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔روحانی میں اخلاقیات آئیں تو وہ دنیا آتی ہے جس میں ھمارے لئے پیغمبر اسلام کی بتائی اسلامیات ہے۔

اللہ تعالیٰ مولانا ظفر علی خان کی قبر پہ اپنی رحمتوں کا نزول کرے۔کیا خوب کہا۔

“دل جس سے زندہ ہے وہ تمنّا تمہی تو ہو

ہم جس میں بس رہے ہیں،وہ دنیا تمہی تو ہو

دنیا میں رحمتِ دو جہاں اور کون ہے؟

جس کی نہیں نظیر وہ تنہا تمہی تو ہو۔”

ہماری یہ دنیا ہے کیا؟
یہ بسم اللہ،ا،انشاءاللہ کی صدائیں۔ما شاءاللہ،انشاءاللہ ،الحمد لللہ کی نِدائیں۔یہ نماز یہ روزے،یہ حج۔یہ زکوٰۃ و صدقات،یہ صلہ رحمی،حسنِ اقابت داری۔حقوق و فرائض والدین،اولاد ،زوجین۔حقِ ہمسائیگی،شہریوں کے حقوق و فرائض۔
یہ امانت یہ دیانت،یہ صداقت،عدالت کے اسباق۔
اور طہارت کیا ہیں؟
یہ وہ دنیا ہے جو آقا و مولیٰ محمًدِ عربی نے بسا کر دکھائی۔اور ہر مسلمان خاطی  و عاصی ہی سہی،اسی میں بسر کر رہا ہے۔

مغرب نواز اور مغربی فکرو تمدن سے متاثر قلمکاروں اور مقرروں کا رخِ حیات بھی “قِبلۂِ مغرب” ہی ہے۔

طہارت کا لازمہ پردہ ہے۔
پردے کی نوعیت میں چہرے کا پردہ،علماء میں اختلاف بھی ہے۔مگر پردے کے حکم سے کوئی انکاری نہیں۔
آج مغربی دنیا کے راہنما طالبان کو درس دے رہے ہیں کہ عورتوں کی تعلیم اور آزادی پر توجہ دیں۔
شاید وہ خود اپنی عطاء کردہ آزادی کے ثمرات کو بھول گئے ہیں۔ان کی تاریخ کیا رہی ہے،اور اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔
مشرقِ وسطی،مغرب،اور دنیا کی نمایاں تہذیبوں کی تاریخ میں عورت کی حیثیت پر اک سر سری سی نظر ڈالتے ہیں۔
دورِ قدیم سے شروع کریں تو ایشیائے کوچک میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین ایک نو حجر آبادی{کتل ہویوک} چھ ہزار قبل مسیح کی باقیات کا حوالہ دیتے ہیں،جس میں عورت کی حیثیت ایک مراعات یافتہ جنس کی تھی۔مشرق وسطیٰ میں دوسرے ہزار سالہ دور کی ثقافتیں،میسوپوٹیمیا۔مصر،کریٹ اور فنیقیوں کی ثقافتوں میں عورت کا دیوی روپ،اس کے وجود کی برتری کی شہادت دیتا ہے ۔
سارہ پوم رائے کے مطابق کلاسیکی دور {500_325} قبل مسیح ایتھنز کی آزاد عورتیں علیحدگی میں رہتی تھیں۔مردوعورت کا آزادانہ اختلاط نہ تھا۔پردے کا رواج تھا،اور عفت و عصمت کی تعریف معاشرے کا عام چلن تھا۔مگر کبھی کبھی لڑکیوں کی طفل کشی بھی رائج تھی۔

میسوپوٹیمی تہذیب کئی ہزار سال پرانی اور سمیری،آشوری،بابلی اور عکادی ثقافتوں پر مشتمل ہے۔شہری آبادیوں کے قیام سے عورت کے رتبے اور مقام میں فرق آتا گیا۔

آشوری قانون رائج 1200 قبل مسیح میں عورت کا استحصال عام تھا۔لیکن باعزت عورتوں ،بیویوں،بیٹیوں اور بیگمات کا پردہ کرنا لازمی تھا۔
عام عورتوں کو پردہ کرنے پر تازیانوں کی سزا دی جاتی اور ان کے بال کاٹ دئے جاتے۔پردہ اعلیٰ طبقے کی نشانی اور مردانہ حفاظت کی نشانی تھی۔

حمورابی قانون مروجہ 1752 قبل مسیح میں عورت پہ رواء ظلم میں کچھ رعائیت رکھ دی گئی۔

ارسطو شادی کو عورت کے لیے وارث مہیا کرنا گردانتا تھا۔اور اس کی کم تر حیثیت کا قائل تھا۔اس کا ماننا تھا کہ یہ ذہنی،جسمانی،اور پیدائشی طور پر کمتر ہے۔فطرت نے اس کو محض خدمت گزاری کیلئے پیدا کیا ہے۔

مغرب میں یونان اور روما کی تہذیبوں کا بڑا اثر رہا ہے۔
یونانی خرافات میں “پانڈورا” ایک خیالی عورت تمام انسانی مسائل کی جڑ ہے ۔
اسی طرح یہودی کہانیوں میں حضرت حوا کو مصائب کا ذمہ دار مانا گیا۔بعد ازاں یہودی اور عیسائی معاشروں میں یہ تصور اپنے دائمی اثرات چھوڑ گیا۔کبھی وہ بھی دور گزرے جب عورت کو اک نیم انسانی مخلوق سمجھا جاتا رہا۔
شروع میں یونانی شرفاء کے زنان خانے مردوں سے الگ ہوا کرتے تھے۔ہوا و ہوس کی آندھیاں چلیں تو شہوت پرستی ہر تعلیم سے برتر ہو گئی۔
طوائف اور بیسوا کا کوٹھا ادنیٰ و اعلیٰ طبقہ عوام کا مرکز بنتا گیا۔

رومی تہذیب کے عروج کے زمانے میں پردے کا رواج تو نہ تھا ،مگر گو ہرِ عصمت ایک قیمتی چیز تصور کی جاتی تھی۔بگاڑ پیدا ہوا آزادانہ مردوزن کا اختلاط،تہذیب کی پہچان ٹھہرا۔

ہندوستان میں عورت داسی کی شکل میں،پتی دیو کے لئے اس کی چتا میں جل کے استحصال کا نشانہ بنتی رہی۔وہاں آج تک ،یہ لنگ،یونی کی پوجا،عبادت گاہوں میں برہنہ اور جڑواں مجسمے،جنسی اختلاط کی خواہشوں کا اظہار ہیں۔
ایران میں مزدوک کے دور میں تو عورت کو اشتراکی ملکیت قرار دے دیا گیا۔

اسلام آیا تو عورت کی باعزت حدود قیود اور اس کے حقوق وفرائض اور وظیفہ حیات کا تعین کر دیا گیا۔
مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی۔

واقعہ یہ ہوا کے اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں کے شروع میں مغربی اقوام نے زیادہ تر مسلمان قومیں اور ممالک اپنے زیر نگیں کر لئے۔
عرصہ دراز ان کے محکوم رہ کر اپنا قومی اور دینی غرور جو صدیوں جہانبانی کا ثمرہ تھا،گنوا بیٹھے۔مغربی تہذیب کا عروج اتنا ہوا،کہ ان کی زبان،عادات و اطوار ،معاشرت حتی کہ چال چلن کی تقلید بھی باعثِ شرف و عزت ٹھہری
۔جس کا ڈھنڈھورا ہمارے دانشوروں نے بھی خوب پیٹا اور آج تک انہی کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔
ان بے خبروں کو یہ نہیں پتہ کہ ان کی اس مادر پدر آزاد تہذیب نے ان کو اور دنیا کو دیا کیا؟
1905 میں امریکہ میں اصلاح اخلاق کے لئے قائم کردہ کمیٹی آف فورٹین نے تب جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق وہاں کے سب رقص خانے،نائٹ کلب،مساج سینٹرز،ہوٹلز۔موٹلز اور مینی کیور شاپس سب قحبہ خانے بن چکے ہیں۔
اور یہ سو سال سے اوپر عملِ پیہم اب ولد الزنا اور ناجائز اولادوں پہ منتج ہوا ہے۔
مسلہ یہ ہے ہم ان صفات میں فخر کرتے ہیں اور تعصب برتتے ہیں،جن کا کوئی وجود نہیں۔رنگ ،نسل،قوم،برادری میں یہ روا نہیں۔

ابنِ خلدون تعصّب کو بقاء کا ضامن بتاتا ہے۔

تعصب برتنا ہے تو اپنے امت وسطیٰ ہونے پر برتیں۔
مسلمان ہونا میرا تعصب ہے۔
ہم نے دنیا پر حکومت کی ہے،یہ میرا تعصب ہے۔
ہم نے دنیا کو ایک وقت میں بڑے علوم وفنون سے روشناس کروایا۔یہ میرا تعصب ہے۔

ھم کیوں کسی کا تہذیبی درس لیں؟
جب کہ ھمارے پاس ابدی ہدائیت آچکی۔
جس میں مردوزن کے دائرہ حیات بھی موجود ہیں۔
______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور”فکرو خیال” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں