امریکا پھر جانبِ جنگ؟ یورپ سوچے!

کرۂ ارض پر انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ’’امن و سلامتی‘‘ کے حوالے سے انسانی تہذیب کے انتہا پر بھی دنیا کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ’’فروغِ انسانیت کے لئے امن و سلامتی جتنی لازم ہے، آج عالمی امن اور ملکوں کی سلامتی پھر اتنے ہی خطرات سے دوچار ہے‘‘۔

اس نے عالمی آبادی کی اکثریت کو بنیادی انسانی حقوق بشمول ناگزیر حقوق ہائے تحفظ جان و مال، خوراک و لباس و رہائش تک کے لئے تمام تر حیران کن نما ایجادات و اختراعات کے باوجود ارتقائی عمل کو بریک لگا دی ہے۔

سوال ہے کس نے اور کیوں لگائی؟ دنیا بھر کے تھینک ٹینکس، یونیورسٹیوں، ایوان ہائے عوامی نمائندگان، حکومتوں اور تمام پوٹینشل گلوبل سٹیزنز کے لئے یہ مختصر ترین سوال بڑا چیلنج بن گیا ہے کہ وہ اس سوال کے زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول اور مکمل استدلالی جواب کی تلاش کی اپنے تئیں (اور مشترکہ بھی) کوششیں کریں جس کے لئے دنیا بھر کے دانشوروں کو جھنجھوڑنا ایک الگ اور بڑا چیلنج ہے کہ کیسے؟

اس پر بھی عالمی سطح پر دانشورانہ کاوشیں لازم ہو گئی ہیں۔ متذکرہ اٹھائے گئے سوال کے عالمی سطح پر قابلِ قبول جواب تک پہنچنے اور بمطابق مشترکہ اقدامات نہ کئے گئے تو عسکری طاقت اور جنگوں سے اپنی مرضی ٹھونس کر پوری دنیا پر غلبے کی ہوس اور اس کا تدارک مہلک شکل اختیار کر لے گا۔ اتنا کہ رواں صدی کی ہی آنے والی نئی نسلیں، اپنی صدی کو ’’جنگوں کی صدی‘‘ قرار دیں گی۔

اِس کا خدشہ ہی پیدا نہیں ہو گیا بلکہ یہ تو صدی کی آمد پر عملی شکل اختیار کرکے لاکھوں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت اور پُرامن ممالک کی تباہی و بربادی کا باعث بن چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ہی رکن ممالک میں دوطرفہ تنازعات، اب ’’فلیش پوائنٹ‘‘ کہلائے جا رہے ہیں۔ طے شدہ حل پر عملدرآمد کو دھونس عسکری طاقت اور طاقتور ممالک کے اپنے تراشے ناجائز ’’قومی مفادات‘‘ سے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

جمہوریت اور آزاد معیشت جیسی اپنی نظریاتی بنیادوں کو پس پشت ڈال کر اس ناممکن کو ناممکن ہی رکھنے اور نئے فلیش پوائنٹس پیدا کرنے ہی نہیں بلکہ بڑی بحری، فضائی جنگوں کے الائو تیار کئے جا رہے ہیں۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں تنازعات کو ختم کرنے، اختلافات کو مہلک ہونے سے بچانے اور ان کو ثمر آور تعاون و تعلق میں ڈھالنے کےلئے خارجہ پالیسی کے آزمودہ پُرامن انسٹرومنٹ ڈپلومیسی ( باہمی مذاکرات) کے نتیجہ خیز ہونے کے باوجود آخری مہلک آپشن، جنگ کا استعمال فقط اپنی ہی مرضی و مفاد کے لئے کرنے کا رجحان پھر سر اٹھا رہا ہے جبکہ سوویت جارحیت کا افغانستان سے خاتمہ فقط جنگ وجدل سے ہی نہیں ہوا تھا ترجیحاً اولین انسٹرومنٹ ڈپلومیسی ساتھ ساتھ استعمال میں رہی تھی درست ہے کہ جنیوا مذاکرات پاکستان و افغانستان کے لئے کوئی بہتر تو نہیں نکلے لیکن جارحیت کا عملاً خاتمہ تو انہی سے ہوا تھا۔

مطلوب نتیجہ نہیں نکلا تو اس میں افغان مجاہدین کے بے وقت اختلافات پاکستان کا کمزور پوزیشن اختیار کرنا اور افغانستان میں سیاسی مداخلت کی گنجائش کو باقی رکھنا تھا۔ اس کے باوجود جہاد کے ساتھ ساتھ ڈپلومیسی کی اتنی برکت ہوئی کہ دنیا کا سب سے بڑا محبوس و محصور و مقہور ریجن سنٹرل ایشیا پھر بالٹک ریجن جارجیا اور روسی نواحی ریاستیں آزاد ہوئیں۔

وائے بدنصیبی 9/11کے اشتعال نے امریکہ کو نتیجہ خیز ڈپلومیٹک پریشر (جارحانہ ہی سہی) اور سرجیکل ٹائپ اور ملٹری آپریشن کی صلاحیت سے محروم کر دیا۔ نتیجتاً افغانستان اور پاکستان ہلاکتوں اور ہولناک دہشت گردی کی زد میں آگئے، مطوبہ نتیجہ پھر مفلوک طالبان کے گوریلا آپریشنز اور بالاخر امریکہ اور طالبان میں ڈپلومیسی پر باہمی آمادگی سے ہی نکلا۔

تاخیر امریکہ کے پارٹ میں آتی ہے جس سے افغانستان دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ اور پاکستان کے خلاف طویل اور مسلسل بھارتی ریاستی دہشت گردی کا بیس بنا، کٹھ پتلی بٹھائی گئی کرپٹ ترین حکومت اور کھربوں ڈالر سے تراشی گئی بھاری بھر کم افغان فوج، امریکہ، پورے نیٹو اور بھارت کے لئے بےحد وحساب خسارے اور شرمساری کا موجب بنی لیکن محفوظ امریکی انخلا ڈپلومیسی کی ہی مرہونِ منت ہے۔

افسوسناک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ انخلا مکمل ہونے کے بعد طالبان عبوری حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود بلاجواز اور فروعی اختلافات کو آڑ بنا کر پھر جنگی ماحول بنانے والا ابلاغ امریکی ایوانوں اور یورپی ممالک سے (کسی حد تک) ہو رہا ہے۔ اس سارے پس منظر میں چین کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کے آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور متنازعہ تائیوان کے اشتراک سے نئے محاذ ’’کواڈ‘‘ اور AUKUSکی تشکیل اور چین، آسٹریلیا کے بہتر تجارتی تعلقات کے باوجود آسٹریلیا کو جوہری آبدوز ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کی خبر نے سائوتھ چائنہ سی کے ماحول کو پھر گرما دیا ۔اس پر چین، نیوزی لینڈ اور فرانس کا فوری اور غیرمعمولی ردعمل دنیا خصوصاً یورپ کے لئے بہت نوٹس ایبل ہے، بریگزٹ نے پہلے ہی یورپی یونین کو کمزور کر دیا ہے۔

افغانستان میں جو کچھ ہوا اس کے ردعمل میں بھی صدر بائیڈن نے B3Wکا جو منصوبہ پیش کیا ہے وہ چین سے فری مارکیٹ میں بیجنگ کی بے قابو برتری کو نیم عسکری اتحاد سے ختم کرنے کی محال کوشش کا عکاس ہے، جس سے گلوبلائزیشن کی شدید حوصلہ شکنی اور ٹریڈ کے ’’ٹریڈ وار‘‘ میں تبدیل ہونے کے خدشات پھر پیدا ہوئے جو اصل میں سابق صدر ٹرمپ کی بین الاقوامی تعلقات میں منفی سوچ کا نتیجہ تھا۔

یہاں تو سابق اور موجود امریکی انتظامیہ ایک پیج پر لگتی ہے یورپ میں باہمی جنگوں اور سیاسی ثقافتی ماحول کا تعصب سیمارک اور میٹرنخ کے آرٹ آف ڈپلومیسی سے کیسے ختم ہوا تھا؟ یورپی یونین کو کمیونزم اور مارشل ایڈ کی ممنوعیت سے نکلے عشرے ہو گئے اب وہ خود اور حلیف امریکہ کو بھی جنگوں کی بجائے ڈپلومیسی کی طرف لانے کی اپنی ذمے داری پر سوچے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں